اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے شدید جھٹکے محسوس کیے گئے جس کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق تقریباََ 20افراد جاں بحق جبکہ 300 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ زلزلے کے نتیجے میں آزاد کشمیر کے شہر میرپور میں ایک عمارت گرگئی جس میں خواتین اور بچوں سمیت 50 افراد زخمی ہوگئے۔
زلزلہ پیما مرکز کے مطابق زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر5.8 ریکارڈ کی گئی جبکہ اس کی گہرائی 10 کلومیٹر زیر زمین تھی۔زلزلہ پیما مرکز نے مزید بتایا کہ زلزلے کا مرکز جہلم سے پانچ کلومیٹر شمال میں تھا۔اسلام آباد کے علاوہ لاہور، پشاور، مری، جہلم، کالا باغ، حافظ آباد، چینیوٹ، پری پور اور دیگر علاقوں میں بھی شدید جھٹکے محسوس کیے گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔پاکستان کا دو تہائی علاقہ فالٹ لائنز پر واقع ہے جس کے باعث ان علاقوں میں کسی بھی وقت زلزلہ آسکتا ہے۔کراچی سے اسلام آباد، کوئٹہ سے پشاور، مکران سے ایبٹ آباد اور گلگت سے چترال تک تمام شہر زلزلوں کی زد میں ہیں، جن میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے حساس ترین شمار ہوتے ہیں۔
زلزلے کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا پانچواں حساس ترین ملک ہے۔ پاکستان انڈین پلیٹ کی شمالی سرحد پر واقع ہے جہاں یہ یوریشین پلیٹ سے ملتی ہے۔ یوریشین پلیٹ کے دھنسنے اور انڈین پلیٹ کے آگے بڑھنے کا عمل لاکھوں سال سے جاری ہے۔پاکستان کے دو تہائی رقبے کے نیچے سے گزرنے والی تمام فالٹ لائنز متحرک ہیں جہاں کم یا درمیانے درجہ کا زلزلہ وقفے وقفے سے آتا رہتا ہے۔
قدرتی آفات یقینا کبھی بھی آسکتے ہیں مگر یہ ہمیشہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرح کے واقعات میں کم سے کم انسانی قیمتی جانیں ضائع ہوں۔ کوئٹہ شہرزلزلہ زون میں واقع ہے اور یہاں متعدد مرتبہ زلزلہ آچکا ہے۔
1935ء کا ہولناک زلزلہ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا جس میں کوئٹہ شہر صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا جس کے بعد شہر کو زلزلہ زون قراردیاگیااور یہاں بلڈنگ کوڈ بھی اس لئے رائج کردی گئی تاکہ بڑی عمارتوں کی تعمیر سے شہر میں بڑے پیمانے پر تباہی نہ ہو مگر المیہ یہ ہے کہ کوئٹہ شہر میں اب تک سینکڑوں کی تعداد میں اونچی اونچی کمرشل عمارتیں اہم تجارتی مراکز میں تعمیر کی گئی ہیں جوکہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
میٹروپولیٹن پابند ہے کہ جب وہ نقشہ جاری کرتا ہے تو اس میں بلڈنگ کوڈ کے تمام قوانین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نقشہ جاری کرے،لیکن افسوس چند آفیسران کاروباری بااثر افراد کی ملی بھگت سے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نقشے جاری کئے جارہے ہیں۔
خدانخواستہ اگراس طر ح کی کوئی آفت آئی تو یہ 1935ء سے کے زلزلے بے بھی خطرناک ثابت ہوگی کیونکہ تنگ گلیوں اور سڑکوں کے ساتھ عمارتیں بنائی گئی ہیں جہاں دن بھر لوگوں کی چہل پہل رہتی ہے اور فوری ریسکیو کیلئے گاڑیاں بھی نہیں جاسکتیں۔ایسی آفات کو روکا تو نہیں جاسکتا مگر حکمت عملی تو بنائی جاسکتی ہے کہ کس طرح سے ان میں انسانی جانوں کا ضیاع کم سے کم ہو،مگر افسوس کہ اس میں بھی لاپرواہی برتی جارہی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے کئی منزلہ تجارتی مراکز اور ہسپتالوں کی تعمیر جاری ہے۔ صوبائی حکومت اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے ان غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے تاکہ اس طرح کے سانحات میں فوری طور پر امدادی کارروائیاں کی جاسکیں۔لہذا میٹروپولیٹن کو اس کا پابند کیا جائے کہ نقشے بلڈنگ کوڈ کے تحت جاری کئے جائیں۔ بہرحال یہ انتہائی افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے مگر جہاں تک ممکن ہوسکے صوبائی حکومتیں بھی اپنی ذمہ داریاں اس حوالے سے پوری کریں کیونکہ حکمران عوام کی جان ومال کے تحفظ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔