گزشتہ کئی دنوں سے کراچی میں کچرہ اٹھانے اور پھینکنے کا مسئلہ سیاسی جماعتوں کی سیاست کا محور بن گیا ہے کسی ایک جماعت نے بھی اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا،تمام اسٹیک ہولڈرز میدان میں ایک ساتھ کود پڑے ہیں۔
میئر کراچی نے ایک فلمی انداز اپناتے ہوئے اپنے ہی سابق جماعت کے میئر کو ایک دن کیلئے گاربیج کا ڈائریکٹر مقرر کیا اور اسے چیلنج کے طور پر حریف نے قبول کیا مگر چوبیس گھنٹے گزرے بھی نہ تھے کہ اس آرڈر کو میئر نے واپس لے لیا،یہ تماشا سیاست کراچی میں ایک جماعت کا خاصہ رہا ہے۔
بہرحال پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر نے بھی کچرا اٹھانے کی ٹھان لی اور پھر روایتی میڈیا سے لیکر سوشل میڈیا پر چرچا شروع ہوا چند روز گزرگئے تو یہ جناب بھی منظر عام سے غائب ہوگئی۔ کراچی سے کچرہ اٹھانے پر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے بلند وبانگ دعوے ہر طرف سنائی دے رہے تھے،اور کمال تو یہ ہے کہ میڈیا بھی بھرپور اس کی کوریج میں مصروف تھی مگر یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا،بالآخر وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی کی صفائی کا بیڑا اٹھالیا ہے دیکھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اس مہم کو کامیاب کرپائینگے یا پھر مسائل اور پیچیدگیاں آڑے آئینگی۔ دوسری جانب بلوچستان کی جانب جب نگاہ کر تے ہیں تو کوئٹہ جو صوبہ کا دارالخلافہ ہے۔
صفائی کی ابتر صورتحال سے دوچار ہے مگر یہ مرکز سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی آنکھوں سے اوجھل ہے جبکہ مین اسٹریم میڈیا کیلئے بلوچستان کے عوامی مسائل تو کبھی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے لٹل پیرس کہلانے والا شہر کوئٹہ صحت وصفائی کی ابتر صورتحال سے دوچار ہے، بلدیاتی انتخابات کے بعد ایک امیدہو چلی تھی کہ شاید شہر میں صفائی کی صورتحال میں بہتری آئے مگر بدقسمتی سے میئر اور ڈپٹی میئرآخر تک اپنے اختیارات اور مزید وسائل کا رونا روتے رہے اور اس کا اعتراف وہ خود کرچکے ہیں۔
صحت وصفائی کا عالم یہ ہے کہ کچرا اٹھانے والی گاڑیاں سڑکوں پر نظر نہیں آتیں۔ سینٹری یا صفائی کا عملہ بھی سڑکوں اور گلیوں میں دکھائی نہیں دیتا۔ شہر میں ہر جگہ گندگی کے ڈھیر پڑے ہوئے ہیں۔ حسب سابق تمام گٹر اْبل رہے ہیں اور پورے شہر کو آلودہ کررہے ہیں۔ بیشترشاہراہوں پر گٹر کا ابلتا ہوا پانی سڑکوں پر نظرآتا ہے،کوئٹہ کا ماسٹرپلان تیار کیا گیا ہے جبکہ کوئٹہ پیکج بھی موجود ہے مگر ان بنیادی مسائل پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی جو عوام کیلئے زحمت بنی ہوئی ہیں۔
صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سب سے پہلے ابلتے گٹر بند کرے تاکہ شہر میں بیماریاں نہ پھیلیں اور پورے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچائے۔ اسی طرح تمام علاقوں میں دن شروع ہونے سے پہلے کچرہ اٹھالیا جائے۔ اگر کوئٹہ میونسپل انتظامیہ کے پاس گاڑیاں نہیں ہیں توحکومت انہیں کچرا اٹھانے والی گاڑیاں فراہم کرے، صوبائی حکومت ان پرانی گاڑیوں کی مرمت کا انتظام کرے تاکہ صفائی کا کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیا جاسکے۔
میونسپل کے بنیادی کام کے لئے حکومت کو ہر طرح سے تعاون کرنا چاہئے بلکہ کوئٹہ کے تمام مکینوں کیلئے فراہمی آب اور نکاسی آب کا جدید نظام تعمیر کیا جائے تاکہ گٹر اْبلنے کا معاملہ ختم ہوجائے۔ پاکستان کو قائم ہوئے 72 سال ہوگئے مگر کوئٹہ شہر خصوصی طور پر سریاب کے مکین بنیادی سہولیات سے محروم ہیں خاص کرفراہمی آب اور نکاسی آب ایک بہت بڑامسئلہ بن چکا ہے۔ ایک طرح سے ان علاقوں کے رہنے والوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کرلیا گیا ہے۔
گزشتہ حکومت کے دوران تین بجٹ میں اتحادی حکومت نے نکاسی آب کی کوئی اسکیم منظور نہ کراکر مقامی لوگوں کے حقوق کو پامال کیا۔ ان کی گزشتہ حکومتوں پر تنقید تھی کہ وہ سرداروں اور نوابوں کی حکومت تھی اور ان کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر انہوں نے بھی سریاب روڈ کے 10 لاکھ مکینوں کے حقوق کو اس وقت پامال کیا جب انہوں نے نکاسی آب کی کوئی بڑی اسکیم نہیں بنائی۔
56 ارب کے ترقیاتی بجٹ سے کچھ رقم ہر سال مختص کی جاتی تو سریاب کے رہائشیوں کو جدید سہولیات فراہم ہوتیں اور شہر کا ماحول بھی آلودہ نہیں ہوتا۔ تقریباً 12 میل طویل سڑک کی دونوں جانب آبادی ہے، آبادی بھی دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ عوامی نمائندوں کی حکومت ختم ہوئی۔ عوام اور خصوصاً ً غریب عوام کو نکاسی آب اور دیگر میونسپل سروسز کی سہولیات فراہم نہ کرکے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔
ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا،اگر سریاب اور دوسرے کم ترقی یافتہ علاقوں میں گندگی کا ڈھیر ہوگا تو بیماریاں ان علاقوں تک محدود نہیں رہیں گی بلکہ پورے شہر میں پھیل جائیں گی۔ سب سے زیادہ اْبلتے گٹر شہر کے وسط میں بھی ہیں اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں آلودگی کا مطلب یہ لیا جائے کہ حکومت کو صحت کے شعبے میں زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا میونسپل انتظامیہ کا پہلا کام صحت وصفائی ہے۔
شہر کو آلودگی اور بیماریوں سے پاک رکھنا ہے۔ بلوچستان اور خاص کر دارالخلافہ کوئٹہ کو بڑے میڈیا ہاؤسز بھی اسی طرح ترجیح دیں،دوہرا معیار رکھنا عوام کے ساتھ زیادتی ہے اگر کراچی میں کچرا مسئلہ ہے تو یہاں بھی گندگی اور ماحولیاتی آلودگی بھی بڑے مسائل بنے ہوئے ہیں اور یہ مسائل کئی دہائیوں سے یہاں کے مکینوں کو درپیش ہیں۔ صوبائی حکومت اور یہاں کی سیاسی جماعتیں بھی کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں اور انہیں حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔