سیندک کاپراینڈ گولڈ پراجیکٹ پر کام کرنیوالی چینی کمپنی ایم آر ڈی ایل کے چیئرمین ہی زوپینگ نے کہا ہے کہ سیندک منصوبے پر مزید کام کرنے کیلئے حکومت کی جانب سے ہماری درخواست پر مزید تلاش کیلئے لائسنس جاری نہ کیا گیا تو یہ منصوبہ 2021 میں بند ہو جائے گا،منصوبے سے ہونیوالی پیداوار کی ماہانہ بنیاد پر صوبائی حکومت کو رپورٹ بھیجی جاتی ہے جبکہ اس سلسلے میں مانیٹرنگ کا پورا نظام بھی موجود ہے جس میں مختلف حکومتی ادارے بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
منصوبے سے اب تک منافع کی مد میں سیندک میٹل لمیٹڈ کو 30کروڑ 22لاکھ 24ہزار 8سو 52 ڈالر رینٹ کی مد میں،77لاکھ 50ہزار ڈالر، حکومت پاکستان کو انکم ٹیکس کی مد میں 58کروڑ 96لاکھ 43ہزار روپے جبکہ حکومت بلوچستان کو 8 ارب 48کروڑ 45لاکھ روپے سے زائدرائلٹی، پریزیمپٹیو ٹیکس کی مد میں ایکسپورٹ پروسسینگ زون (ای پی زیڈ) کو 2 کروڑ 22 لاکھ 57 ہزار ڈالر، ای پی پی سرچارج کی مد میں ایک کروڑ ڈالر اور علاقے کی سماجی ترقی کیلئے سی ایس آر کی مد میں صوبائی حکومت کو 55لاکھ ڈالر سے زائد ادا کر چکے ہیں۔
کمپنی کی جانب سے مزید وسائل کی تلاش کیلئے درخواستیں زیر التواء ہیں امید ہے کہ صوبائی حکومت جلد اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کریگی۔ سیندک منصوبہ دور دراز سرحدی علاقے میں ہے یہ علاقہ پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کا موسم بھی بڑا سخت ہے سیندک میں وسائل پہلی مرتبہ 1960کے عشرے میں دریافت ہوئے تاہم باقاعدہ کام آغاز 1989میں شروع ہوا اس طرح منصوبے کو اب 30سال مکمل ہو چکے ہیں۔
منصوبے پر سیندک میٹل لمیٹڈ نے 1995میں کام شروع کیا جبکہ ایم آر ڈی ایل یہاں 2003میں آئی جس کے بعد یہاں سے پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا۔منصوبے پر اس وقت کل 1915ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں سے 246چینی اور دیگر مقامی ملازمین ہیں۔ منصوبے پر عالمی سطح پر طے شدہ معیار کے مطابق اوقات کار مقرر ہیں مختلف شعبوں میں مختلف سطح کے ملازمین کیلئے تنخواہوں کے باقاعدہ اسٹرکچر موجود ہیں تا ہم تمام ملازمین کو سالانہ 12کی بجائے 13 تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں جن میں ایک اضافی تنخواہ بونس کے طور پر ہے۔
سیندک پروجیکٹ کا شمار بلوچستان کے اہم اور منافع بخش منصوبوں میں ہوتا ہے جہاں گولڈ اور کاپر کاذخیرہ موجود ہے، بہرحال گزشتہ کئی برسوں سے کام کرنے والی کمپنیوں نے سیندک جہاں واقع ہے ان علاقوں میں کوئی اسپتال،اسکول تعمیر نہیں کروائی حالانکہ کمپنیوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ پہلی ترجیح میں مقامی افراد کو ملازمتیں فراہم کریں اور ہر قسم کی سہولیات فراہم کریں مگر افسوس بلوچستان میں کوئی ایک مثال بھی ہمیں ایسی نہیں ملتی۔
اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔ جس طرح سیندک کمپنی کے چیئرمین ہی زوپینگ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مزید لائسنس جاری نہیں کئے جارہے،یہ ایک اچھی بات ہے کہ صوبائی حکومت لائسنس صوبہ کے وسیع تر مفاد اور وسائل کے تحفظ کو مدِ نظر رکھتے جاری کرے جس سے صوبہ کو اور اس کے عوام کوفائدہ پہنچے۔نیزبلوچستان میں اس وقت جتنے بھی بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے ان پر بھی حکومت نظر دوڑائے کہ آیا وہ کس حد تک صوبہ کے مفادات کومد نظر رکھ کر کام کررہے ہیں اور بلوچستان کو اس کا جائز منافع مل رہا ہے یا پھر ہمیشہ کی طرح صرف کمپنی اور وفاق سب کچھ لے جارہے ہیں۔
ریکوڈک ہمارے سامنے ایک واضح مثال ہے جس کے لائسنس کے اجراء اور منافع تک بلوچستان کو کچھ نہیں ملا، البتہ جرمانہ بلوچستان کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔امید ہے کہ صوبائی حکومت بلوچستان کے وسائل اور مفادات کاہرسطح پر تحفظ کرے گی اور سیندک معاہدے کی تجدید اس صورت کرے گی جہاں بلوچستان کے منافع کی شرح کومجموعی منافع کی نصف تک بڑھایا جائے گا اور کمپنی کی جانب سے اہلِ علاقہ کوبنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔