اپوزیشن نے اے پی سی میں جس اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا اسی دوران یہ اندازہ بخوبی لگایا گیا تھا کہ یہ ایک مصنوعی اتحادثابت ہوگا اور ہر جماعت اپنے مفادات کو تحفظ دینے کیلئے سیاسی پتہ کھیلے گی، پہلا جھٹکا اپوزیشن کو اس وقت لگا جب چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران انہی جماعتوں کے اراکین نے پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے حکومتی امیدوار میر صادق سنجرانی کو ووٹ دیا اور انتہائی حیران کن تماشا بن گیا کہ سب ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے،پھر کیسے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر حکومت کے خلاف کامیاب لانگ مارچ کرینگے۔
یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ جو جماعتیں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں کامیابی حاصل نہیں کرسکیں وہ حکومت کو کس طرح گراسکتی ہیں ویسے بھی دھرنا، احتجاج سے فی الوقت صرف ایک دباؤ برقرار رکھا جاسکتا ہے مگر حکومت کسی بھی دھرنے سے نہیں گئی جس کی واضح مثال ماضی کے طویل دھرنے ہیں۔ بہرحال سیاسی دنگل میں ایک عجب تماشا ضرور دیکھنے کو مل رہا ہے خاص کر پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے بیانات کو ہی اٹھاکر دیکھ لیں۔
ایک طرف ان کا کہنا ہے کہ ہم جمہوری انداز میں جدوجہد کرینگے اور جمہوری تسلسل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں جو کہ پیپلزپارٹی کی طویل تاریخ ہے مگر دوسرے ہی لمحہ اس کی نفی کرتے ہوئے جوشیلہ پن اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری عمل میں لائی گئی تو ایسا احتجاج کرینگے کہ لوگ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کو بھول جائینگے۔
اب یہ تضادسے بھرا سیاسی مؤقف خود پیپلزپارٹی کی پالیسی پر سوالات اٹھارہی ہے یا پھر یہ کہاجائے کہ پیپلزپارٹی ایک مخصمے کا شکار دکھائی دیتی ہے اور وہ اس وقت بچ بچاؤ کی پالیسی اپناتے ہوئے چل رہی ہے کہ کسی طرح سے ان کی جماعت کے قائدین پرہاتھ ہلکا رکھا جائے اور اسی لئے وہ مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شرکت سے ہچکچا رہی ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کے حوالے سے یہ باتیں پہلے سے ہی باز گشت کررہی ہیں کہ ن لیگ دو حصوں میں تقسیم ہے۔
ایک طرف میاں محمد نواز شریف ہیں جنہوں نے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شرکت کیلئے باقاعدہ پیغام بھیجا ہے جبکہ شہباز شریف اور اس کے ساتھ جڑے لیگی رہنماء ماحول کو سازگاربنانا چاہتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح سے ڈیل کا راستہ ہموار ہوسکے اور اس حوالے سے ایک وفاقی وزیر اپنے پریس کانفرنس کے دوران متعدد بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ شہباز شریف ایک بہترین ماحول کے ذریعے ن لیگ سے ملبہ ہٹانے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ لیگی لیڈران کیلئے کوئی ڈیل کا راستہ ہموار ہوسکے۔
گوکہ اس کی تردید متعدد بار لیگی رہنماؤں کی جانب سے آئی بھی ہے مگر وزیراعظم عمران خان نے واضح طور پر کہا تھا کہ چند ممالک ان کیلئے این آراو مانگ رہے ہیں جوکسی صورت ہم نہیں دینگے۔ گزشتہ روزکے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیڈران کے بیانات پر نظر دوڑائی جائے تو سارا خلاصہ خود سامنے آجائے گا کہ اکتوبر کی بجائے نومبر میں لانگ مارچ کافیصلہ کیا جائے تاکہ بھرپور طاقت کے ذریعے اپوزیشن ملکر اس تحریک کو کامیاب بناسکے یعنی اپوزیشن اس وقت مکمل متحرک اور مضبوط نہیں ہے جو کامیاب لانگ مارچ کرنے قابل ہو۔
البتہ مولانا فضل الرحمان نے اکتوبر ہی میں دھرنا دینے کافیصلہ کیا ہے اور اب تک ان کی جانب سے کسی لچک کا مظاہرہ بھی نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی اپوزیشن جماعتوں کے بیانات پر کوئی تبصرہ کیا ہے جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے لانگ مارچ کی تیاری مکمل کرلی ہے۔ بہرحال یہ لانگ مارچ کتنا بااثر ہوگا یہ فی الوقت کہا نہیں جاسکتا مگر اپوزیشن جماعتوں کی کلا بازیوں سے یہ نتیجہ ضرور اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن متحدہوکر اس مارچ میں حصہ نہیں لے گی اور قوی امکان ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ بکھر جائے گا۔
اب حکومت بھی نئی حکمت عملی کے ساتھ کابینہ میں ردو بدل کرنے جارہی ہے تاکہ گزشتہ ایک سال کے دوران جونتائج برآمد کرنے تھے اس میں اس قدر کامیابی حاصل نہیں کی گئی ہے لہٰذا اب گڈ گورننس پر توجہ دی جائے تاکہ حکومتی اقدامات سے عوام اطمینان کا سانس لے سکیں۔