شام میں حکومت کے ساتھ سیاسی اختلافات نے خانہ جنگی کا رخ اختیار کیا، صرف ایک شخص جس کی وجہ سے پورا شام تباہ و برباد ہوگیا۔ ڈھائی لاکھ لوگ ہلاک ہوگئے، 50لاکھ سے زائد لوگ بے وطن اور مہاجر بن گئے۔ لاکھوں لوگ یورپ کا رخ کرچکے ہیں جہاں پر وہ سیاسی پناہ چاہتے ہیں اور امن کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ اگر فرد واحد ملک اور قوم کے لئے قربانی دیتا تو پورا شام تباہ و برباد نہیں ہوتا۔
اس سے قبل صدام حسین کی وجہ سے عراق تباہ ہوا۔ قذافی کی وجہ سے لیبیا اور اب صدر اسد کی وجہ سے شام تباہ ہوگیا۔ شاید اس کے بعد ایران کی باری ہے یہاں بھی عدم برداشت کے شواہد سامنے آرہے ہیں۔ بلکہ بعض عرب ممالک یہ الزام لگارہے ہیں کہ ایران یمن پر قبضہ کرچکا ہے۔ اس کی افواج شام، عراق اور لبنان میں موجود ہیں۔ شام میں تو کئی ایرانی فوجی جرنیل جنگ میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ شام میں ابھی بھی خانہ جنگی جاری ہے اور حالات سنگین رخ اختیار کرتے جارہے ہیں۔ گزشتہ دو تین روز کے ترک فوج کے حملوں سے شام میں بڑے پیمانے پر تباہی مچی ہے۔
ترکی کی جانب سے شام میں کْرد ملیشیا کیخلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں جاری ہیں، ترک افواج کی بمباری کے دوران شامی کْرد ملیشیا کے 16 ارکان ہلاک ہوگئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترکی کی جانب سے شام کے شمال مشرقی سرحدی علاقے راس العین میں کْرد ملیشیا کے 181 ٹھکانوں پر بمباری کی گئی جس کے دوران کْرد ملیشیا کے 16 ارکان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔کْردوں کی سربراہی میں لڑنے والے سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) اور ترک افواج کے درمیان سرحدی علاقے میں شدید جھڑپیں ہوئی ہیں،ترک افواج کے حملوں کے بعد علاقے سے بڑی تعداد میں شہریوں کا انخلاء جاری ہے اور مقامی افراد محفوظ مقام کی جانب جارہے ہیں۔
ترکی اور شام کی موجودہ صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے جبکہ عرب لیگ نے بھی ہفتے کو اپنا اجلاس طلب کیا ہے۔دوسری جانب ایران نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر شام میں عسکری کارروائی کا سلسلہ بند کرے۔ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی اپنی فوجیں فوری طور پر شامی علاقے سے واپس بلائے اور حملوں کا سلسلہ بند کرے۔
علاوہ ازیں مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ترکی کا شمالی شام پر حملہ کرنے کا فیصلہ غلط ہے۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کو شام سے واپس بلالیا تھا جس کے بعد ترکی کو امریکا کے سابق اتحادی کرد جنگجوؤں پر حملہ کرنے کا موقع ملا۔فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی ہی جماعت ریپبلکن پارٹی کے سینیئر اراکین سمیت واشنگٹن کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ٹرمپ کے فیصلے کو کرد ملیشیا کے ساتھ دھوکا قرار دیا گیا ہے۔خیال رہے کہ کرد جنگجوؤں کے ساتھ مل کر امریکی فورسز نے شام سے داعش کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کی تھیں۔
کردوں کے خلاف ترکی کی حالیہ کارروائی کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اس حملے کو قبول نہیں کرتا۔امریکی صدر نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ترکی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انسانی بحران کی صورتحال پیدا نہیں ہونے دے گا اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہے۔ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے داعش کو دوبارہ پروان چڑھنے کا موقع ملے گا۔
شام میں حالیہ حملوں کے بعد بڑے پیمانے پر تباہی کا اندیشہ ظاہر کیاجارہاہے جوکہ اسلامی ممالک کیلئے نئے چیلنجز پیدا کرے گی اس سے قبل بھی شام تباہی سے دوچار ہوا تھا بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی تھی آج بھی شامی مغربی ممالک میں پناہ لئے رکھے ہوئے ہیں مگر وہ اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں تاکہ واپس اپنے وطن جاسکیں مگر جس طرح سے شام کو طاقتور ممالک نے اپنے شکنجے میں لے رکھا ہے، اس آگ کے شعلے دیگرممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے لہٰذا اسلامی ممالک خود آپسی اختلافات کا حل تلاش کریں مگر بدقسمتی سے او آئی سی جیسے غیر فعال آرگنائزیشن سے اس طرح کی امید اور توقع رکھنا عبث ہے۔ بہرحال حالیہ حملوں کے انتہائی بھیانک نتائج برآمد ہونے کے قوی امکانات ہیں جو کہ اسلامی ممالک کے مفادات کو شدید ٹھیس پہنچائینگے جس کی ذمہ دار خود انہی ممالک کی آمرانہ سوچ ہوگی۔