ملک میں مہنگائی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے جس نے سیاسی گہماگہمی بھی پیدا کررکھی ہے اور اسی کا ایک بڑا سیاسی چیلنج کے طور پر حکومت کوسامنا کرناپڑرہا ہے، اپوزیشن کی سیاست اس وقت ملک کی معاشی صورتحال پر دکھائی دیتی ہے جو کہ ملک کا اندرونی مسئلہ ہے جو انتہائی گھمبیر بنتا جارہا ہے کیونکہ غریب عوام کی تنخواہیں وہی ہیں اور اخراجات بے حد بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں بھی شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
اپوزیشن حکومتی جماعت کے ماضی کے وعدوں کو بار بار یاد کراتے ہیں کہ ملک کو قرضوں سے نجات دلایا جائے گا، مزیدقرض نہیں لئے جائینگے، مہنگائی کی شرح کو کم کیا جائے گا، عوام کولاکھوں کی تعداد میں روزگار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رہائشی گھر بھی دیئے جائینگے مگر 13ماہ کا وقت گزرنے کے بعد کسی بھی وعدے پر عملدرآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہاالبتہ معاشی صورتحال مزید گھمبیر ہوچکی ہے، روزمرہ کی اشیاء اتنی مہنگی ہوچکی ہیں کہ عوام کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔
یہاں تک کہ ادویات بھی انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہیں، غریب عوام کو علاج معالجے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے،انہیں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں وہ دیگر آسائش ومراعات کا سوچ بھی نہیں سکتے۔دوسری جانب تاجر برادری بھی اپنے خدشات کا اظہار کرچکی ہے یہ حقائق ہیں جنہیں جھٹلایا نہیں جاسکتا اگر حکومت ملک میں موجود ہ معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے، لوگوں کو ریلیف ملنا شروع ہوجائے تو عوام میں موجود بے چینی کا خاتمہ ہونے کے ساتھ ساتھ تاجر برادری بھی سکون کا سانس لے گی۔
گزشتہ روزوزیر اعظم عمران خان نے ملک بھر میں مہنگائی کی روک تھام کے لیے تمام وزرائے اعلیٰ کو طلب کیاہے۔وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ اجلاس میں 12 نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا،انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی لہر کی وجہ سے وزیر اعظم نے تمام وزرائے اعلیٰ کو جمعہ کو طلب کر لیا، کابینہ نے بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں مستحکم رکھنے کی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں وزیر اعظم نے جان بچانے والی، کینسر کی ادویات کی قیمتوں پر نظر رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔دوسری جانب اگر سیاسی حالات کا جائزہ لیاجائے تو اس وقت جمعیت علمائے اسلام ف کی جانب سے احتجاجی مارچ اور دھرنے کو بھی عوامی مسائل سے نتھی کیاجارہا ہے کہ حکمرانوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے۔یہ ایک الگ بحث ہے کہ دھاندلی کے ذریعے حکومت بنائی گئی ہے تو اپوزیشن اور حکمران جماعتیں انتخابات سے کبھی بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتیں اور یہ مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔
اگر انتخابات کی شفافیت کی بات کی جائے تو یہ اس وقت کے اپوزیشن کا بھی کام تھا کہ اصلاحات لاتی، انتخابات کو شفاف بنانے کیلئے بہترین اقدامات اٹھائے جاتے تاکہ آنے والے انتخابات پر سوالات نہیں اٹھائے جاتے۔ جن تحفظات کا اظہار آج اپوزیشن کررہی ہے اس میں ان کا اپنا بھی کردار ماضی میں رہا ہے جس سے وہ بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔
بہرحال اس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑا چیلنج معاشی بحران ہے جسے حل کرنے کیلئے حکومت نے مزید بہتری لانی ہوگی تاکہ عوامی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں کیونکہ عوام نے تحریک انصاف کو اس امید پر ووٹ دیئے تھے کہ انہیں سترسالہ مشکلات سے نجات دلائی جائے گی۔اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس پر کس حد تک عملدرآمد کرتے ہوئے عوام کی مشکلات میں کمی لائے گی۔