ّٓآج کل اپوزیشن آزادی مارچ کے حوالے سے شہ سرخیوں کی زینت بنی ہوئی ہے لیکن اس وقت دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی مکمل شمولیت پر ابہام پایا جاتا ہے گوکہ نواز شریف نے اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے مگر میاں شہباز شریف نے حتمی طور پر ابھی تک فیصلہ نہیں سنایا ہے جس کے ہاتھوں میں اس وقت مسلم لیگ ن کی قیادت ہے۔
مختلف فورمز پر مسلم لیگ ن کے رہنماء اس بات کو دہرارہے ہیں کہ ان کی جماعت آزادی مارچ میں شرکت کرے گی مگر اس کا باقاعدہ پارٹی کی سطح پر اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا ہے اس طرح اب تک معاملات میں ابہام دکھائی دے رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی مسلم لیگ ن کے صدرشہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات طے پاگئی ہے۔دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات 20 اکتوبر کو ہوگی۔ ملاقات میں آزادی مارچ سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا جائے گا۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان 18 اکتوبر کو مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف سے بھی ملاقات کریں گے۔مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہاہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور مولانا فضل رحمن 18 اکتوبر کو مشترکہ پریس کانفرنس کریں گے جس میں آزادی مارچ اور جلسے کے حوالے سے اہم فیصلوں کا اعلان کیا جائے گا اور اپوزیشن جماعتوں کی مستقبل کی حکمت عملی کے بارے میں قوم کو آگاہ کیا جائے گا۔
مسلم لیگ ن کی رہنما نے کہا کہ ملکی معیشت کی تباہی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔مسلم لیگ ن کی رہنماء کی ان باتوں سے کسی بھی جگہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ وہ آزادی مارچ میں مکمل شرکت کرنے جارہے ہیں بلکہ مہنگائی اور ملکی سیاسی صورتحال پر ان کا زیادہ زور دکھائی دے رہا ہے، یہی وہ ابہام ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان فی الحال آزادی مارچ کے حوالے سے مکمل طور پر اتفاق نہیں ہے جبکہ لاہور میں ہونے والی ملاقات میں مولانا فضل الرحمان شہباز شریف کو آزادی مارچ کے حوالے سے اقدامات پر اعتماد میں لیں گے۔
مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف آزادی مارچ میں حکومت کی طرف سے ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹنے کے حوالے سے بھی بات چیت کریں گے۔ آزادی مارچ کے مطالبات کے حوالے سے بھی دونوں رہنماؤں میں بات چیت ہوگی۔آزادی مارچ کے انتظامی امور کے حوالے سے مختلف کمیٹیوں کی تشکیل پر بھی بات چیت کا امکان ہے یعنی ملاقات کے دوران اعتماد میں لیا جائے گا اس سے قبل شہباز شریف کو آزادی مارچ کے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا گیا اور نہ ہی اقدامات کے حوالے سے انہیں کسی جگہ اعتماد لیا گیا ہے لہذا دوبارہ ملاقات میں یہ تمام معاملات طے پائینگے۔
بہرحال یہ اطلاعات خود اپوزیشن اتحاد کی قلعی کھول رہے ہیں کہ اس وقت وہ آزادی مارچ کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہیں۔واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے 31 اکتوبر کو آزادی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے،دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پی پی پی کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ہے۔پی پی پی سیکرٹری جنرل نئیر بخاری کو رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم درانی نے ٹیلیفون کرکے ملاقات طے کی تھی۔
جے یو آئی ف کے وفد میں مولانا غفور حیدری، اکرم درانی اور دیگر رہنماء جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے نئیر بخاری، مصطفٰی نواز کھوکھر اور قیوم سومرو موجود تھے۔ ملاقات نئیر بخاری کی رہائش گاہ پر ہوئی جس کے دوران آزادی مارچ سمیت دیگر سیاسی امور پر مشاورت کی گئی۔پیپلزپارٹی نے تو یہ واضح کردیا ہے کہ وہ آزادی مارچ میں شرکت نہیں کرے گی البتہ استقبالیہ کیمپ لگائی جائے گی، اخلاقی وسیاسی حمایت میں فرق کچھ نہیں ہے جب کسی کے مؤقف یا عمل کی تائید کی جاتی ہے تو اس کے تمام عمل میں برابر کا شریک تصور کیا جاتا ہے بہرحال اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے پتے کھیل رہی ہیں ان کے درمیان اتحاد کی اصل صورت آزادی مارچ کے آغاز پر سامنے آئے گی۔