|

وقتِ اشاعت :   November 2 – 2019

کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے قریب آتشزدگی کے باعث 73 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے،حادثے کے بعد بوگیوں سے کئی افراد کی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئیں،زخمیوں میں بعض کی حالت نازک ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کاخدشہ ہے۔ لاشوں اورزخمیوں کو فوری طورپر مقامی ہسپتالوں میں منتقل کر کے ایمر جنسی نافذ کر دی گئی جبکہ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہاہے کہ بوگی میں ایک چولہا اور دو سلنڈر موجود تھے ایک کے پھٹنے سے باقی نے بھی تباہی مچادی، مسافروں کا سامان چیک کرنے کی سہولت صرف بڑے اسٹیشنز پر موجود ہے۔

باقی چھوٹے اسٹیشنز پر مسافروں کے سامان کی تلاشی لینے کا کوئی نظام نہیں،غلطی ریلوے کی نہیں،مسافروں کی ہے، سلنڈر کیسے پہنچے،تحقیقات ہونگی،مسافروں اور ٹرین کی انشورنس ہے جس سے مالی نقصان کی تلافی ہوسکے گی۔ بدقسمت ٹرین کو حادثہ صبح چھ بجکر پندرہ منٹ پر ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے چنی گوٹھ کے نزدیک چک نمبر 6 کے تانوری اسٹیشن پر پیش آیا۔ریلوے حکام کے مطابق آگ ٹرین کی بوگی نمبر 3 میں موجود سلنڈر پھٹنے سے لگی جس نے تیزی سے مزید 3 بوگیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تاہم ایک عینی شاہدنے بتایاکہ ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے تمام سلنڈروں سے گیس نکا ل دی گئی تھی اور پنکھے کے شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگی اور یہ آگ اے سی سلیپر میں لگی۔حکام کے مطابق متاثرہ بوگیوں میں سوار مسافر رائیونڈ اجتماع میں شرکت کیلئے جارہے تھے اور آتشزدگی کی لپیٹ میں آنے والی دو بوگیاں خصوصی طور پر بک کروائی گئیں تھیں۔

متاثرہ بوگیوں میں زیادہ تر مرد حضرات سوار تھے جن کے پاس کھانا بنانے کیلئے سلنڈر بھی موجود تھا۔عینی شاہدین کے مطابق آگ لگنے کے بعد ہونے والے دھماکے کی آواز سن کر دیگر مسافر تخریب کاری کے خطرے کے پیشِ نظر چلتی ہوئی ٹرین سے کود گئے۔حکام کے مطابق چلتی ٹرین سے ریلوے ٹریک کے قریب پتھروں پر کودنے کے باعث زیادہ مسافر زخمی ہوئے جن میں 3 سے 4 خواتین بھی شامل ہیں۔

حادثے کے بعد سب سے پہلے مقامی افراد نے فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ کر اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں شروع کیں۔عینی شاہدین کے مطابق حادثے کے بعد بوگیوں سے کئی افراد کی جلی ہوئی لاشیں نکالی گئیں جن میں سے کئی لاشوں کے ٹکڑے ملے ہیں۔ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان جمیل احمد جمیل نے بتایا کہ زیادہ تر مرنے والوں کی لاشیں جھلسنے کی وجہ سے ناقابل شناخت ہیں،واضح رہے کہ گزشتہ ایک سال کے عرصے میں ٹرینوں کے تصادم اور پٹڑی سے اترنے کے ساتھ مختلف قسم کے حادثات میں واضح اضافہ سامنے آیاہے۔

اس سے قبل 11 جولائی کو صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں ولہار اسٹیشن پر اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی آپس میں ٹکرا گئیں جس کے نتیجے میں 23 افراد جاں بحق اور 85زخمی ہوگئے تھے۔اس سے قبل 20 جون 2019 کو حیدرآباد میں جناح ایکسپریس ٹریک پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکراگئی تھی جس کی وجہ سے ڈرائیور، اسسٹنٹ ڈرائیور اور گارڈ جاں بحق ہوگئے تھے۔

17 مئی کو سندھ کے ضلع نوشہرہ فیروز کے علاقے پڈعیدن کے قریب لاہور سے کراچی آنے والی مال گاڑی کے حادثے کے باعث کراچی سے ٹرینوں کی آمدورفت متاثر ہوگئی۔یکم اپریل کو رحیم یار خان میں مال بردار ریل گاڑی پی کے اے-34 کی 13 بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں تھیں جس سے محکمہ ریلوے کو نہ صرف لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ملک بھر میں مسافر ریلوں کا نظام بھی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔

24 دسمبر 2018 کو فیصل آباد میں شالیمار ایکسپریس کو پیچھے سے آنے والی ملت ایکسپریس نے ٹکر ماردی تھی، حادثے میں ایک مسافر جاں بحق اور 5 زخمی ہوئے تھے۔27 ستمبر 2018 کو دادو میں سن کے قریب ٹرین کی گیارہ بوگیاں پٹڑی سے اترگئیں تھیں جس کے نتیجے میں 5 مسافر زخمی ہوگئے تھے۔16 جون 2018 کو میانوالی میں خوشحال خان ایکسپریس کی سات بوگیاں پٹڑی سے اترگئیں تھیں، حادثے میں بچوں اور خواتین سمیت 20 مسافر زخمی ہوئے تھے۔

بہرحال اس ہولناک سانحہ پرپوری قوم افسردہ ہے مگر کب تک اس طرح کے حادثات سے عوام کی قیمتی جانیں ضائع ہونگی بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں اب تک 80کے قریب ٹرین حادثات ہوچکے ہیں جبکہ ہر حادثہ کے بعدانکوائری کمیٹی بٹھائی جاتی ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز رونما ہونے والے سانحہ کو چند ہی لمحہ گزرے تھے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید نے فوری طور پر اسے گیس سلینڈر دھماکہ قرار دیدیا نہ تحقیقات کی گئیں نہ ہی ثبوت اکٹھے کئے گئے جبکہ عینی شاہدین کچھ اور بتارہے ہیں وزیر ریلوے کا مؤقف کچھ اور ہے اس طرح متضاد بیانات شکوک وشہبات کو جنم دیتے ہیں، سب سے پہلے اس کی انکوائری اور تحقیقات کرنا وفاقی وزیر ریلوے کی ذمہ داری بنتی ہے مگر شومئی قسمت موصوف کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں دیکھا گیا۔

ملکی اور غیرملکی سیاسی لیڈران کے ہر لمحے کی خبر فوری طور پر دیتے ہیں ملک میں کیا ہونے جارہا ہے کیسی تبدیلی کی ہوا آرہی ہے اس حوالے سے شیخ رشید صاحب ہر وقت آپ کو حاضر جواب اور باخبر ملیں گے مگر اپنے محکمہ کی طرف اس کی توجہ کا عالم حادثات سے ہی لگایا جاسکتا ہے، امیدیں تو وزیراعظم عمران خان سے لگی ہوئی تھیں کہ جس طرح وہ ماضی میں ٹرین حادثات پر فوری طور پر ریلوے کے وزیر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے دکھائی دیتے تھے تاکہ تحقیقات پر وزیر صاحب اثرانداز نہ ہوں مگر انہوں نے بھی افسوس کے ساتھ تحقیقات کرنے کا حکم ہی صادر فرمایا لہٰذا عوام تسلی رکھیں اتنی جلدی محکموں میں تبدیلی نہیں آتی اسے ٹھیک کرنے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے۔

خیر حکومتی رویہ سے عوام میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے جو دعوے ماضی میں کئے گئے تھے محض ایک اپوزیشن مورچہ پر بیٹھ کر حکومت پر فائر کرنا ہی تھا یہ یقین ہوچلا ہے کہ موجودہ حکومت تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ضرور اقتدار میں آئی ہے مگرتبدیلی جیسی پالیسی نہیں وہی روایتی طرز حکومت ہے بلکہ اب تو حالات اس سے بھی بدتر ہوتے جارہے ہیں اگر پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ انہوں نے حقیقی تبدیلی لانی ہے تو اپنے ہی دعوؤں کو حقیقت میں تبدیل کریں تاکہ عوام کو یہ تسلی مل سکے کہ آنے والا دن بہتر ہوگا وگرنہ اسی طرح کے ہولناک سانحات رونما ہوتے رہینگے اور تحقیقاتی کمیٹی بنائی جاتی رہے گی جن کا نتیجہ گزشتہ 79ٹرین حادثات کی طرح کچھ بھی نہیں نکلے گا، تیزگام سانحہ ملکی تاریخ کابڑا واقعہ ہے افسوس کہ تبدیلی سرکار کے دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں۔