کوئٹہ: غیر سرکاری تنظیم ”ہارڈ“ بلوچستان کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں بچیوں کی شادی سے متعلق 1929ء کا قانون نافذ العمل ہے، صوبائی حکومت بچیوں کی کم عمری میں شادی کی ممانعت کے حوالے سے قانون سازی کرکے شادی کی عمر18 برس کرے۔
ان خیالات کا اظہار ہفتے کے روز کوئٹہ پریس کلب میں سماجی تنظیم ہیلتھ رولر ڈیویلپمنٹ،بلوچستان چائلڈ رائٹس موومنٹ، بلوچستان وویمن یونیٹ ورکس کے عبدالحئی بلوچ ایڈووکیٹ،ضیاء بلوچ، بہرام لہڑی، سندس شبیر، بہرام بلوچ، گل خان نصیر، ثمرین، روبینہ، نازیہ نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کاکہنا تھا کہ بلوچستان میں کم عمری کی شادی کے حوالے سے بل عرصہ دراز سے منظوری کا منتظر ہے۔
اس بل کے تمام نقاط ماسوائے بچوں کی عمر کا تعین پرتمام فریقین متفق ہیں اس سلسلے میں سماجی تنظیمیں بچوں کی کم عمری میں شادی کے خاتمے کیلئے قانون سازی سے متعلق تیس روزہ حمایتی وکالتی آگاہی مہم شروع کررہی ہے مہم کے دوران اراکین اسمبلی، میڈیا، سیاسی و سماجی، مذہبی، سول سوسائٹی، والدین اور متعلقہ اداروں سے روابط اور انہیں آگاہی فراہم کی جائے گی اور اس سلسلے میں لوکل زبانوں میں مختلف ایم ایف ریڈیوز پر پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا اور بلوچستان اسمبلی میں قانون سازی نہ ہونے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ شادی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے تحت عمر کی حد اٹھارہ برس مختص ہیں تاہم بدقسمتی سے بلوچستان میں آج بھی1929ء کا قانون نافذ العمل ہے جس کے تحت لڑکوں کی شادی کی عمر16 برس ہے1929ء کے قانون کے تحت اس جرم کے مرتکب شخص کو ایک مہینہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوتی ہے جو بچیوں کے حقوق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔اْنہوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کی اموات کے حوالے سے بلوچستان میں شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔