اسلام آباد میں سیاسی دنگل سج گیا ہے جس سے سیاسی ماحول میں گرماگرمی پیدا ہوگئی ہے بہرحال وثوق سے کہا تو نہیں جاسکتا کہ اسلام آباد میں جنگی ماحول پیدا نہیں ہوگا البتہ جلسے کی تقاریر اور اس کے ردعمل کی سرجری کی جائے تو اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ معاملات نازک صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے جمیعت علمائے اسلام کی جانب سے وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حزب اختلاف نے معاہدے کی خلاف ورزی کی تو سخت ایکشن لیا جائے گا۔
وزیراعظم کی زیرنگرانی ہونے والے اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ پرویزخٹک نے بتایا کہ حزب اختلاف وزیراعظم کے استعفے کا سوچے بھی نہ، اس معاملے پر کوئی بات نہیں ہوگی۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق جو جگہ دی گئی اس سے آگے نہیں بڑھنا اور اگر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو ایکشن لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی کی رہبر کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں اور افرا تفری سے کوئی نقصان ہوا تو ذمہ داری ان پر عائد ہو گی۔ کمیٹی اراکین نے فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن کا کوئی بھی غیرآئینی مطالبہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ آزادی مارچ کے شرکاء جہاں بیٹھے ہیں وہیں رہے تو حکومت کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔
وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ حزب اختلاف کا احتجاج احتساب کا عمل روکنے کی کوشش ہے پھر بھی اپوزیشن کا آئینی حق تسلیم کرتے ہوئے انہیں اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت دی گئی۔کورکمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت جے یو آئی کی رہبر کمیٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی ہر حال میں پاسداری کرے گی۔وزیر داخلہ نے بریفنگ میں بتایا کہ اسلام آباد کے شہریوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے دیں گے۔
اجلاس میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ پر مشاورت کی گئی اور پرویز خٹک نے مذاکراتی کمیٹی کے جے یو آئی کے نمائندوں سے ہونے والے رابطوں پر بھی بریفنگ دی۔وزیراعظم کی جانب سے طلب کیے گئے اجلاس میں 21 اہم افراد نے شرکت کی جس میں مولانا کی گزشتہ شب کی گئی تقریر اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بھی مشاورت ہوئی۔دوسری جانب حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے حزب اختلاف کی جماعتوں سے رابطہ کیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے پیپلزپارٹی کے رہنما نیئربخاری کو فون کر کے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔نیئر بخاری نے جواب دیا کہ حکومت بتائے کس معاملے پرمذاکرات کرنا چاہتی ہے، حکومتی کمیٹی سے ملاقات کا فیصلہ رہبرکمیٹی میں مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی گزشتہ تقریر میں وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے لیے دو دن کا وقت دیا تھا۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم پرامن لوگ ہیں اور امن کے دائرے میں ہیں وگرنہ یہ انسانوں کا سمندر اس بات کی قدرت رکھتا ہے کہ وزیراعظم کو گرفتار کرسکتا ہے۔مولانا فضل الرحمان کے وزیراعظم کو گرفتار کرنے کے متعلق حکومتی ردعمل میں کہا گیا ہے کہ یہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے اس لئے عدالت سے رجوع کیاجائے گا۔ دو دن کے بعد کیا لائحہ عمل رہبر کمیٹی طے کرے گی یہ پورے احتجاجی تحریک کے رخ کا تعین کرے گی گمان یہ بھی کیاجارہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے بعض قائدین طویل دھرنا اور اسلام آباد لاک ڈاؤن سے مولانا فضل الرحمان کو دور رکھنے کامشورہ دینگے تاکہ سیاسی کشیدگی میں مزید شدت پیدا نہ ہو،البتہ دوسری جانب یہ باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ اسلام آباد احتجاج کے بعد ملک گیر تحریک پر بھی غور کیاجائے گا۔
یہ تمام قیاس آرائیاں اس وقت جاری ہیں فی الوقت حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔ حکومتی اور رہبر کمیٹی کے درمیان مذاکرات سے اتنی امیدیں تو نہیں لگائی جاسکتیں،اپوزیشن اپنے فیصلہ خود کرے گی البتہ حکومت کی طرف سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ معاہدے کیخلاف ورزی پر ایکشن لیا جائے گا۔ سیاسی تناؤ اس وقت ملک کے وسیع تر مفاد میں نہیں کیونکہ سرحدوں کی صورتحال ہو یا دیگر معاملات اس وقت مختلف چیلنجز موجود ہیں اور یہ ذمہ دارانہ سیاست کا وقت ہے جس پر سیاسی قائدین کوقومی مفاد میں سوچنا ضروری ہے تاکہ کوئی سیاسی حل نکل سکے جس سے ملک کو نقصان نہ پہنچے۔ حکومت اپنی گورننس کو بہتر کرے اور عوام کی پریشانیوں میں کمی لانے پرزیادہ توجہ دے،اور اپوزیشن بھی عوام کی مشکلات کو سمجھتے ہوئے پُرامن احتجاج جمہوری انداز میں کرے تاکہ غریب عوام جن مسائل سے دوچار ہیں ان میں اضافہ نہ ہو۔