|

وقتِ اشاعت :   November 4 – 2019

گزشتہ روز سیندک پروجیکٹ انتظامیہ ایم آر ڈی ایل نے مائننگ ڈپیارٹمنٹ میں کام کرنے والے ایک ملازم کو بغیر نوٹس کے جب فارغ کیا تو کمپنی میں شامل دیگر ملازمین نے اس حوالے سے معلومات لینے کی کوشش کی جس کے جواب میں 30 دیگر ملازمین کو بھی ملازمت سے برطرف کر دیا گیا اورانہیں راتوں رات تفتان منتقل کیا گیا جس پر برطرف ملازمین نے گزشتہ روزاحتجاجاََ پیدل مارچ کرتے ہوئے سیندک کراس پر روڈ بلاک کر کے احتجاج کیا۔

اس طرح سیندک سے آنے والی تمام آمدورفت بند ہوگئی اور گاڑیوں کی لمبی لائن لگ گئی۔برطرف ملازمین کا کہنا ہے کہ بلاجواز اور بغیر فراغت نوٹس کے ہمیں نکالا گیا ہے واضح رہے کہ کچھ مہینے پہلے ہم نے اپنی تنخواہوں کے متعلق احتجاج کیا تھا،ایم ڈی سیندک پراجیکٹ حاجی رازق سنجرانی نے کمیٹی بنا کر مسئلہ حل کردیا تھا،ایک ملازم کا کہنا تھا کہ وہ خود اس کمیٹی کا ممبر تھا مگر گزشتہ روز بغیر کچھ بتائے لیویز گاڑی میں بٹھا کرانہیں تفتان بھیج دیا گیا کہ آپ ملازمت سے فارغ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ سراسر ظلم کیا جارہا ہے، انتظامیہ اس طرح ہمیں نوکریوں سے نکال نہیں سکتا آخر ہمارا قصور کیا ہے، انہوں نے کہا کہ جب تک ہمیں بحال نہیں کیا جاتا ہم پُرامن احتجاج جاری رکھیں گے۔واضح رہے کہ ان میں وہ ملازمین شامل ہیں جنہوں نے رواں سال کے دوران تنخواہوں میں اضافے اوردیگرمطالبات کے حق میں احتجاجاً کام بندکردیاتھا۔

ملازمین کا اس دوران یہ مؤقف تھاکہ مہنگائی دوسوفیصدبڑھنے کے بعد بھی پروجیکٹ انتظامیہ نے سالانہ 6 سے 8 ڈالر یعنی 2.8 فیصدتا3 فیصدتنخواہوں میں اضافہ کیا ہے جوسراسر زیادتی ہے،اس احتجاج کے دوران ملازمین نے دھونس اور دھمکیاں ملنے کی بھی شکایت کی تھی مگر اس کے باوجود ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجاََ پروجیکٹ پر کام بند کردیاتھا۔

خیال رہے کہ سیندک پروجیکٹ پر پاکستان اور چینی کمپنیاں سونے اورتانبہ کے ذخائرپرگزشتہ کئی سالوں سے کام کررہی ہیں جس سے دونوں ملکوں خصوصاًچائنیزکمپنیاں اربوں ڈالرکما چکی ہیں اور مزید کمارہی ہیں مگر کمپنی میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین کے معاشی حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انتہائی تعجب کی بات ہے کہ اربوں روپے کی پیداوار دینے والے اہم منصوبے کے ملازمین کو کوئی بھی سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں،یہ انتہائی ظالمانہ اقدامات ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ اربوں روپے منافع کمانے والی کمپنی علاقے کی ترقی کیلئے وسائل فراہم کرتی مگر افسوس کہ سیندک ملازمین کے ساتھ ناروا سلوک اپنایاجارہا ہے۔

پھر کس طرح سے یہ امید لگائی جاسکتی ہے کہ کمپنی بلوچستان کے مفادات کا تحفظ کرے گی۔بارہا انہی کالموں اور تحریروں کے ذریعے تجویز پیش کی جاتی رہی ہے کہ اچھے اور ایماندار افسران پر مشتمل ایک ٹیم بنائی جائے جو معاشی منصوبوں کی نگرانی کرے اور ایسی ہی ایک ٹیم سیندک کو چلائے اوراس بات کو یقینی بنائے کہ سیندک سے حاصل ہونے والی آمدنی بشمول کارپوریٹ ٹیکس کے حکومت بلوچستان کے حوالے کیے جائیں۔

حکومت بلوچستان سیندک پلانٹ کو توسیع دے تاکہ اربوں ڈالر کی آمدنی صرف اور صرف بلوچستان کی حکومت اور عوام کے لئے ہو۔ وفاقی حکومت پندرہ سال سے زائد عرصہ سے اس کی آمدنی پر قابض ہے اور چینی کمپنی بھی بے دردی سے وسائل کو لوٹ رہا ہے اور اپنی کارپوریٹ ذمہ داریاں بھی پوری نہیں کررہا۔ہماری وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ چین سے دوستی کی خاطر بلوچستان کے عوام کے وسائل قربان نہ کریں۔

دنیا کی ترقی یافتہ ممالک ہمارے سامنے واضح مثال ہیں کہ وہاں منافع بخش کاروبار سے ملنے والی رقم سے پہلے ورکرز کو ترجیح دی جاتی ہے جنہیں بہترین تنخواہ سمیت سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جبکہ ساتھ ہی جن علاقوں میں منافع بخش کاروبار چل رہے ہیں ان کو ترقی دینے کے علاوہ پورے ملک کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی، وسائل سے مالا مال خطہ ہونے کے باوجود آج بھی بلوچستان پسماندہ ہے جبکہ ملک کو بھی اس طرح کی ریونیو نہیں مل رہی جس سے قومی خزانے کو بھی براہ راست فائدہ پہنچے۔اگر سیندک جیسے پروجیکٹ سے بلوچستان کے لوگوں کو چند ملازمتیں بھی نہیں مل سکتیں، اور صوبے کو اس سے حاصل کچھ بھی نہیں ہورہا تو پھر ایسے پروجیکٹ کا بند ہونا بہتر ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ صوبائی حکومت بلوچستان کی معدنیات سے متعلق منصوبوں پراز سر نو غور کرکے انہیں بہتر اور اپنے مفاد میں لانے کیلئے حکمت عملی تیا ر کرے۔