حکومت کے خلاف احتجاج اور دھرنے کا فیصلہ جب مولانافضل الرحمان کی جانب سے کیا گیا تو اس دوران بارہا جے یوآئی ف کی جانب سے خاص کر یہی بات دہرائی گئی کہ یہ فیصلہ رہبرکمیٹی میں شامل تمام اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت کے بعد کیا گیا مگر اس حوالے سے ملک کی دوبڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے عملی طور پر کھل کر شرکت کا اظہار نہیں کیا اور جب آزادی مارچ شاہراہوں سے گزری تو محض ان کی جانب سے استقبالیہ چھوٹے کیمپ ہی لگائے گئے جبکہ دونوں جماعتوں کے قائدین بھی کسی مقام پر دکھائی نہیں دیئے البتہ اسلام آباد میں جب مارچ پہنچی تب اپوزیشن جماعتوں کے قائدین آئے، اپنی شرکت ظاہر کی مگر اس کے بعد وہ مسلسل مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کنٹینر پر دکھائی نہیں دیئے۔
یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ اسلام آباد دھرنے میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی رائے مختلف تھی بہرحال اس مارچ اور اسلام آباد میں جاری احتجاج سے نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں احتجاج کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں ہیں۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کا آزادی مارچ اسلام آباد کے ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہے۔جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے یکم نومبر جمعے کی شام وزیر اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کیلئے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تھی جو اتوار کی شام ختم ہوچکی ہے تاہم وزیراعظم مستعفی نہیں ہوئے۔
فضل الرحمان نے آزادی مارچ سے خطاب میں کہا تھا کہ وزیراعظم نے دو روز میں استعفیٰ نہ دیا تو یہ اجتماع قدرت رکھتا ہے کہ خود وزیر اعظم کو گھر جا کر گرفتار کر لے البتہ ہم پْرامن لوگ ہیں چاہتے ہیں کہ پْرامن رہیں، اداروں کے ساتھ کوئی لڑائی یا تصادم نہیں چاہتے،اداروں کا استحکام چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ادارے بھی غیر جانب دار رہیں۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پایا ہے کہ اپوزیشن اسلام آباد کے ایچ 9 گراؤنڈ میں جلسہ کرے گی اور وہاں سے آگے نہیں بڑھے گی۔حکومت کی جانب سے جاری این او سی کے مطابق آزادی مارچ میں 18 سال سے کم عمر بچے شرکت نہیں کریں گے، مارچ قومی املاک کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچائے گا، آزادی مارچ کے شرکا ء سٹرکیں اور راستے بند نہیں کریں گے، شرکاء کسی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہوں گے۔
دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیرز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کیا گیا۔ اے پی سی میں اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور یہ فیصلہ بھی کیا کہ ایچ 9 کے گراؤنڈ میں مارچ کا قیام ابھی جاری رہے گااے پی سی میں اتفاق کیا گیا ہے کہ جو بھی فیصلہ ہوگا وہ مل کر کیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے اجلاس کے دوران کہا کہ چھوٹے مفادات کو عوامی مشکلات پر ترجیح نہ دیں، کیا حکمرانوں کے خلاف احتجاج صرف جے یو آئی ف کا فیصلہ تھا، آپ سب مل کر عوامی حکمرانی کے لیے ٹھوس، جامع حکمت عملی بنائیں، خدارا عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکیں، آپ خلوص دل سے حکمت عملی بنائیں، جے یو آئی ف آپ کا ہر اول دستہ ہوگی، خواہش ہے کہ تمام جمہوری قوتیں مل کر کردار ادا کریں۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ، محمود خان اچکزئی، میاں افتخار اے پی سی میں شریک ہوئے لیکن مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو شریک نہیں ہوئے۔بہرحال مولانا فضل الرحمان نے جس شکوے کا اظہار کیا کہ احتجاج کا فیصلہ صرف جمعیت کا نہیں تھا عوام کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکا جائے اس کے بعد کوئی ابہام نہیں رہتا کہ اپوزیشن جماعتیں مستقبل میں مزید اس اتحاد کو برقرار نہیں رکھ سکیں گی اور قوی امکان ہے کہ جلد ہی یہ دھرنا بھی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا جس کے بعد چھوٹے چھوٹے احتجاجی جلسے ملک کے دیگر شہروں میں بظاہر پاور شو کیلئے دکھائی دینگے جس میں صرف جمعیت علماء اسلام ہی دکھائی دے گی دیگر اپوزیشن جماعتوں کی شرکت اس میں نہیں ہوگی۔