|

وقتِ اشاعت :   November 7 – 2019

سیاست کامقصد معاشرے میں بہتری لانا ہے جس کے اپنے اصول ہیں البتہ سیاسی فیصلوں میں ہمیشہ عوامی خواہشات اور ترجیحات کو اہمیت دینا ضروری اور فرض سمجھا جاتا ہے مگر بعض اوقات ایسے سیاسی فیصلے اور راستے اختیارکئے جاتے ہیں جو عوامی خواہشات کے برعکس ہوتے ہیں کیونکہ ان سے سیاسی اہداف حاصل کرنا ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں سیاسی مقاصد کو ہمیشہ گروہی بنیاد پرترجیح دی گئی اس لئے ہر وقت سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی اور فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

آزادی مارچ کے گزشتہ روز کی جھلک ہی دیکھ لی جائے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت اس وقت کنٹینر پر دکھائی نہیں دے رہی اور اطلاعات یہی ہیں کہ مسلم لیگ ن نے عملی طور پر اس احتجاج سے دوری اختیار کرنے کافیصلہ کیا ہے جس پر بہت سارے سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیونکر مسلم لیگ ن کی قیادت جو اس وقت شہباز شریف کررہے ہیں انہوں نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے؟ اس کے پس پشت مقاصد کیا ہیں؟ بات وہی سیاسی مقاصد کے حصول پر آکر رک جاتی ہے۔

سوشل میڈیا پر تو ن لیگ پر تنقید کی جارہی ہے مگر پارٹی کے اپنے ہی سوشل میڈیا کے اندر یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس پر کہاجارہا ہے کہ شہباز شریف نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے کہ اسے کسی ڈیل یا درمیانے راستے سے نتھی کرنا زیادتی ہے مگر وضاحت میں بھی کوئی خاص وزن نہیں ہے کیونکہ بعض حلقے یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ریلیف دینے کی صورت میں شہباز شریف نے یہ حکمت عملی اپنائی ہے اور مستقبل میں مزید سیاسی گنجائش پیداکرنے کیلئے آزادی مارچ سے دوری اختیار کی جارہی ہے۔

بہرحال نواز شریف کی بیماری کا مسئلہ انتہائی سنجیدہ ہے جس کی صحت یابی کیلئے سب دعا گو ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے یہاں تک کہ اگر نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئے بھی بھیجنے کی ضرورت پڑی تو حکومت نے اس پر سوچ وبچار کی بات کی ہے۔یہ خوش آئند بات ہے کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر انسانیت کو اولین ترجیح دی جائے اور یہی سیاسی واخلاقی اصول بہتر حکمرانی کی عکاسی کرتا ہے مگر سوالات خود اپوزیشن کے اندر بلکہ ن لیگ کے ورکرز کی جانب سے اٹھائے جارہے ہیں کہ ریلیف ملنے کی بات ہے تو مسلم لیگ ن کی دوسری لیڈر شپ کیلئے بھی اسی طرح سوچنے کی ضرورت ہے۔

بہرحال اس وقت مسلم لیگ ن کو جماعت کے اندر سے ہی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جبکہ حکومتی مؤقف واضح طور پر سامنے ہے کہ انہوں نے انسانی بنیادوں پر یہ ریلیف فراہم کی ہے جو کسی ڈیل کا حصہ نہیں۔دوسری جانب سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد نوازشریف کو سروسز اسپتال سے 16 روز بعد گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کے مطابق نوازشریف کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) قائم کردیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عدنان کی زیر نگرانی شریف میڈیکل سٹی اسپتال نے نوازشریف کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ قائم کیا ہے۔آئی سی یو میں وینٹی لیٹر(مصنوعی تنفس) اور کارڈیک آئی سی یو کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ترجمان کے مطابق ڈاکٹرز نے مریم نوازشریف کو والد کی صحت کی بنا پر سخت حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے اور ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔

نواز شریف کی صحت ابھی بھی بہتر نہیں ہے بہرحال ڈاکٹرز کے مشوروں کے مطابق ہی آگے کا فیصلہ کیا جائے گا کہ مزید علاج ملک کے اندر ممکن ہے یا پھر بیرون ملک انہیں جانا پڑے گا اس پر ن لیگ نے بھی کوئی بات نہیں کی ہے اگر نوازشریف کو علاج کیلئے بیرون ملک جانے کا معاملہ آتا بھی ہے تو امید ہے کہ اسے سیاسی رنگ دینے کی بجائے ایک انسان کی صحت سمجھ کر سوچنا پڑے گا کیونکہ ہر معاملے کو ڈیل سے جوڑنا قطعاََ مناسب نہیں مگر اس روایت کو سیاسی جماعتوں نے ہی بدلنا ہے کیونکہ ایسے شکوک وشہبات کا شوشا ہمیشہ سیاسی جماعتیں خود ہی چھوڑتے آئے ہیں۔ حقائق کو مسخ کرکے صرف سیاسی اہداف حاصل کرنا سیاسی جیت نہیں بلکہ بہترین سیاسی روایات کو پروان چڑھاکر ہی اچھی سیاست کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔