|

وقتِ اشاعت :   November 8 – 2019

اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے احتجاجی دھرنا جاری ہے تعجب کی بات ہے کہ اب اس احتجاج کا پورا محور ومرکز اپوزیشن جماعتوں سے ہٹ کر صرف مولانا فضل الرحمان اور اس کی جماعت بنی ہوئی ہے، یہ تو واضح ہے کہ احتجاجی دھرنے سے وزیراعظم مستعفی نہیں ہونگے اور نہ ہی اس سے حکومت گھر چلی جائے گی، ماضی کی مثالیں سامنے ہیں کہ پی ٹی آئی کے 126 روزہ دھرنے کے باوجود مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ مدت پوری کی گئی اور یہ جمہوریت کیلئے ایک اچھی بات ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں جمہوری تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے بحرانات کا سامناکرنا پڑا ہے۔

اس سلسلہ کو جاری رکھنے سے ملک میں جمہوریت مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل میں سیاسی فوائد بہت زیادہ ہونگے اگر تبدیلی کا راستہ بھی جمہوری انداز میں اِ ن ہاؤس لائی جائے تو یقینا یہ زور آور ثابت ہوگا مگر اس پر بھی اپوزیشن ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتی کیونکہ پیپلزپارٹی سندھ حکومت کو چھوڑنا نہیں چاہتی، پہلے سے ہی سندھ کی سیاست میں پیپلزپارٹی کو چیلنجز درپیش ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ن بھی فی الحال اس موڈ میں دکھائی نہیں دیتی کیونکہ شہباز شریف کی قیادت میں چلنے والی مسلم لیگ ن اس وقت حالات اور ماحول کو سازگار بنانا چاہتی ہے تاکہ کچھ نرم گوشہ ان کی جماعت کیلئے رکھا جائے جس کی تردید تو مسلم لیگ ن کررہی ہے۔

البتہ موجودہ اسلام آباد کے احتجاجی دھرنے سے سیاسی حکمت عملی واضح ہوجاتی ہے۔ بہرحال سیاسی مسائل کو سیاسی اور پُرامن طریقے سے حل کرنے میں کوئی قباحت نہیں یہ سیاست کا جُز ہے جس کا تجزیہ باآسانی سیاسی فیصلوں کے ذریعے کیاجاسکتا ہے اور یہی سب کچھ اب نظر بھی آرہا ہے۔اپوزیشن جماعتوں نے اس سے قبل چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی مگر اس میں کامیابی انہیں نہیں مل سکی، اس لئے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا مزید تجربہ وہ نہیں کرسکتے۔ البتہ دوسری جانب حکومت کے اتحادی چوہدری پرویز الہٰی نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم کے استعفے کے متبادل بہت سی پیشکش ہیں اور مذاکرات کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کیساتھ مذاکرات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو پرویز الہیٰ نے بتایا کہ ہم سب پرامید ہیں اور چیزیں بہتری کی طرف جارہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قوم کو خوشخبری ایک بار ہی سنائیں گے، ایک ایک کرکے خوشخبری نہیں سناسکتے۔ مولانا جس پرراضی ہوں گے وہی بات ہوگی۔حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویزخٹک نے کہا کہ ایسا ڈیڈ لاک نہیں کہ بات چیت ختم ہے، ہماری ٹیم تمام پارٹیوں کے سربراہوں سے رابطے میں ہے، ملاقاتوں کا انشااللہ نتیجہ ضرور نکلے گا۔پرویزخٹک نے بتایا کہ وزیراعظم نے مسئلہ جلد از جلد حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

حکومتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ڈیڈ لاک وزیراعظم کے استعفے اور جلدی الیکشن پر ہے تاہم ایسا لگتا ہے مولانا 12 ربیع الاول تک یہیں ہیں۔تحریک عدم اعتماد کے متعلق پرویزخٹک کا کہنا تھا کہ جب چاہیں اپوزیشن لائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دھاندلی ہوئی ہے تو ثبوت دیں، بات آگے چلے گی، بغیر ثبوت کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے۔دوسری جانب حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے بنائی گئی جمعیت علمائے اسلام کی رہبر کمیٹی نے آزادی مارچ جاری رکھنے اور حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کا آزادی مارچ 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوا تھا اور انہیں سیکٹر ایچ 9 میں کشمیر ہائی وے پر بیٹھنے کی جگہ دی گئی ہے۔

چوہدری برادران کے بیانات اور مارچ کی صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان 12 ربیع الاول کے بعد احتجاج ختم کردینگے اور کچھ نکات پر دستخط بھی ہوسکتے ہیں جو کہ دونوں فریقین کیلئے قابل قبول ہوں اور یہ پہلی بار نہیں ماضی میں بھی حکومت واپوزیشن جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے دوران یہ ہوتا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نکات میں اہم کیا ہونگے مگر یہ واضح ہوگیا ہے کہ اپوزیشن دوبارہ ایسا تجربہ نہیں کرے گی جوکہ بے سود ثابت ہونے کے ساتھ مستقبل میں ان کی سیاست پر منفی اثرات مرتب کرے۔