|

وقتِ اشاعت :   November 16 – 2019

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین کا اپنے حلقوں میں اسپیشل اسسٹنٹ کے مداخلت پر احتجاج قیادت پر الزامات لگنے پر اراکین میں تلخ وتنز جملوں کا تبادلہ ہواآزادی مارچ کی حمایت پر ایک مرتبہ پھر اے این پی اور تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی آمنے سامنے آگئے۔

ڈپٹی اسپیکر نے غیر پارلیمانی الفاظ کو حذف کرنیکی رولنگ دی، جمعہ کے روز ڈپٹی اسپیکر بلوچستان اسمبلی کی زیر صدارت ہونے والے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے کہا کہ موجودہ صوبائی حکومت جب اقتدار میں آئی تو صوبے میں 26 ہزار آسامیاں خالی تھیں جو ماضی میں بروقت پر نہ کی گئی تھیں۔

موجودہ حکومت نے آتے ہی ان اسامیوں کو شفاف انداز میں میرٹ پر پر کرکے بے روزگاری میں کمی لانے کا فیصلہ کیا، ماضی میں بھرتیوں کے حوالے سے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام اضلاع میں بھرتیوں کیلئے ڈپٹی کمشنروں کی سربراہی میں کمیٹیاں بنائی گئیں اگر کہیں کوئی کمی یا خامی رہ گئی ہو تو اسے بھی ٹھیک کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں جب محکمہ تعلیم میں بھرتیاں ہوئیں تو اس پر کوئٹہ سے اپوزیشن ارکان نے اپنے موقف کا اظہار کیا تھا اسی طرح تربت میں بھی ہونے والی بھرتیوں پر ایک رکن نے اپنا موقف پیش کیا تھا جس کا وزیراعلیٰ نے نوٹس لیتے ہوئے سی ایم آئی ٹی کو یہ ٹاسک دیا کہ کوئٹہ اور تربت میں محکمہ تعلیم میں ہونیوالی بھرتیوں کو دیکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میں یقین دلاتا ہوں کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی قیادت میں صوبائی حکومت کسی حقدار کی حق تلفی برداشت نہیں کرے گی ہمارے نزدیک نوکریوں کے عوض پیسہ لینا سب سے مکروہ عمل ہے میرے محکمے میں معذور افراد کیلئے اسامیاں آئیں میں نے سختی سے ہدایت کی ہے کہ ان پر شفاف انداز میں میرٹ پر بھرتیاں کی جائیں وزیراعلیٰ کی قیادت میں سی ایم آئی ٹی کو فعال اور بااختیار بنادیا گیا ہے۔

اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ملازمتوں میں بھرتیوں سمیت کسی حوالے سے کہیں کوئی بے قاعدگی ہو تو اس کیخلاف سخت کاروائی ہوگی ہم احتساب پر یقین رکھتے ہیں چیک کے بغیر کسی نظام کو نہیں چلایا جاسکتا۔ اسمبلی کی اسٹیڈنگ کمیٹیاں اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے مسلسل اجلاس ہورہے ہیں اگر کہیں کوئی شکایت ہے تو پی اے سی سے رابطہ کیا جائے ضرور تحقیقات ہوں گی۔

قبل ازیں اجلاس میں بی این پی کے رکن اکبر مینگل نے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے کہ ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے حلقے پی بی 40کی اسکیم اری پیر تا سارونہ 30کلو میٹر روڈ کی تعمیر کی پی ایس ڈی پی 2019-20میں سیریل نمبر 122 اسکیم نمبر Z2019.0074 کے تحت 35کروڑ سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے کیا یہ درست کہ مذکرہ اسکیم کو وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت کی روشنی میں محکمہ پی اینڈ ڈی کے مراسلہ نمبر P&D.AC(Mines)/4-39/2019/5438مورخہ 31اکتوبر2019 کے تحت تبدیل کیا جارہا ہے۔

اگر جواب اسباب میں ہے تو کیا محکمہ موصلات و تعمیرات اسمبلی سے پاس شدہ پی ایس ڈی پی کو تبدیل کرنے کا اختیار رکھتا ہے نیز مذکرہ اسکیم کو تبدیل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی مکمل تفصیل ایوان میں پیش کی جائے۔صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ کابینہ میں کوئی ایسی تجویززیر غور نہیں ہے اگر معاملہ کابینہ میں آتا ہے تو اس کا جائزہ لیں گے کہ کیا وجوہات ہیں اگر منصوبے سے کسی حلقے کو فائدہ مل رہا ہے تو وہ منصوبہ ضرور بنے گا لیکن اگر منصوبہ صرف واحد کیلئے ہے تو اس کا بھی جائزہ لیں گے۔

جس پر بی این پی کے اکبر مینگل نے کہا کہ منصوبہ فرد واحد کیلئے نہیں حلقے کے عوام کیلئے ہے اْنہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو رگڑنے کیلئے ہمارے حلقوں میں ٹھیکداروں کو اسپیشل اسسٹنٹ لگایا گیا ہے اور وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم مفت میں اسپشل اسسٹنٹ نہیں لگے اگر وہ مفت میں نہیں لگے تو اْن سے حاصل کی جانیوالی رقم کن کی جیبوں میں جا رہی ہے۔

وضاحت کی جائے معزز ایوان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہماری داد رسی کرتے ہوئے متعلقہ حکام سے وضاحت طلب کر کے کس بنیاد پر منصوبے کو منتقل کیا جار ہا ہے بی این پی کے اختر حسین لانگو نے کہا کہ مذکرہ منصوبہ محکمہ مائنز والوں نے تجویز کیا تھا کیونکہ وہاں مائنز اور ماربل کی کانیں موجود ہیں جہیں کراچی کی مارکیٹ تک رسائی دینے کیلئے 30 کلو میڑ شاہراہ تعمیر کی جارہی ہے منصوبے کیلئے پی ایس ڈی پی میں 35کروڑ روپے رکھے گئے ہیں مگر اب 30کلومیٹر کی سڑک تعمیر کرنے جا رہی ہے جو ناممکن ہے۔

ْانہوں نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کے بغوض میں ہمارے حلقوں کے منصوبے دیگر حلقوں میں منتقل کر رہی ہے صوبائی وزیر عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ قائد ایوان پرکوئی بھی ایک روپے کی کرپشن ثابت کرے میں اپنی وزرات اور سرداری دونوں چھوڑ دوں گا۔

اْنہوں نے کہا کہ اس قسم کے الزامات ماضی میں اختر مینگل پر بھی لگے ہیں جس پراپوزیشن اورحکومتی اراکین میں طنز و تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے غیر پارلیمانی الفاظ کو حذف کرنیکی رولنگ دی بی این پی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ سیاسی بنیادوں پرعام انتخابات میں مسترد ہونیوالے لوگوں کو نوازنے کیلئے اسپیشل الیزر اسسٹنٹ تعینات کیے جارہے ہیں ایک منتخب رکن کو 15کروڑ کے فنڈ جبکہ غیر منتخب شخص کو 20کروڑ روپے دئیے گئے ہیں۔

اجلاس میں صوبائی وزیر انجینئر زمرک اچکزئی نے زرعی یونیورسٹی پشاور میں پی ایس ایف کے جنرل سیکرٹری میر بھتیجا بھی ہے پر تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جھگڑے کے بعد ان میں راضی نامہ ہوا تھا تاہم اس کے باوجود انہیں تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور وہ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

اْنہوں نے کہا کہ ہم عدم تشدد کے پیرو کار ہیں ہماری سو سالہ تاریخ ہے ایک ساتھ ہمارے 800کارکنوں کو شہید کیا گیا اس کے باوجود ہم نے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا آج شہید جیلانی خان کی برسی پر چمن میں ہزاروں کا اجتماع منعقد ہوا ہے ہم کسی سے گھبرانے والے نہیں ہیں اس قسم کے حربے استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے اور ملزمان کو گرفتار کرکے سزا دی جائے۔

اْنہوں نے کہا کہ ہمارا نظریہ ہے کہ شہادتوں سے تحریکیں کمزور نہیں مضبوط ہوتی ہیں اْنہوں نے کہا کہ میں واضع کرتا چلوں کے ہم بلوچستان میں تحریک انصاف کے نہیں بلوچستان عوامی پارٹی کے اتحادی ہیں جس پر تحریک انصاف کے مبین خلجی نے کہا کہ پشاور زرعی کالج میں پیش آنیوالے واقع کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ وفاق میں ہماری جماعت کی حکومت کیخلاف اسلام آباد میں دھرنے دانے والے 10 دن بھی دھرنا نہیں دے پائے ہم نے چار حلقوں کو کھولنے کیلئے 120 دن دھرنا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تحریک انصاف جام کمال حکومت کی اتحادی ہے اور جو جماعت اس اتحاد میں شامل ہے ان کے قائدین ہماری جماعت کیخلاف اسٹیج پر کھڑے ہوکر باتیں کررہے ہیں ایک جانب یہ لوگ حکومت میں بیٹھے ہیں تو دوسری جانب شاہراہ بلاک کررہے ہیں جس سے لاکھوں افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم اپنے پارٹی کے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں جو بھی جماعتیں ہمارے کیخلاف بولیں گے ہم حق ہے کہ ہم ان سے متعلق اپنا موقف دیں۔ جس پر زمرک اچکزئی نے کہاکہ ہم تحریک انصاف کے ساتھ نہیں تحریک انصاف ہمارے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی یونس عزیز زہری نے کہا کہ ہم نے اسمبلی میں دھرنے سے متعلق کوئی بات نہیں کی یہ ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے اور پاکستان کے لو گ حکومتی پالیسیوں کیخلاف ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ڈیڑھ سال میں جو ملک کا عشر کیا ہے اس کیخلاف لوگ سڑکوں پر بیٹھ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرارہے ہیں اور لوگ ایک مہینے تک بھی سڑکوں پر بیٹھے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بلوچستان میں ایک اینٹ بھی نہیں رکھا نہ پاکستان میں کوئی میگا منصوبہ شروع کرپائی ہے لاکھوں نوکریاں اور گھر دینے کے دعویٰ کرکے انڈے اور مرغی پر آگئے اور 2020 کا سورج طلوع ہونے سے قبل یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ خضدار میں محکمہ تعلیم میں ہونے والی نان ٹیچنگ بھرتیوں پر خلاف میرٹ تعیناتیوں کیلئے راہ ہموار کی جارہی ہے درجہ چہارم کی آسامیوں پر نصیر آباد اور لسبیلہ کے لوگوں کو خضدار میں تعینات کیا گیا ہے۔ سابق چیئرمین یونین کونسل اوروزیراعلیٰ کے موجودہ اسسٹنٹ کیخلاف انکوائری کیلئے کمیٹی قائم کی گئی تھی اور وزیر بلدیات نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ خود تحقیقات کی نگرانی کرینگے تاہم اب تک تمام شوائد ہونے کے باوجود تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ6 ماہ گزرجانے کے باوجود اسمبلی کی رولنگ کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے معاملہ کی تحقیقات کرائی جائے۔ صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے کہا کہ اپوزیشن اراکین شکایات کیساتھ ثبوت لائیں یقین دہانی کراتا ہوں جو بھی ملوث ہوگا اس کیخلاف کاررروائی کی جائے گی۔