|

وقتِ اشاعت :   November 21 – 2019

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم عمران خان کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم طاقت ور کا طعنہ ہمیں نہ دیں، جس کیس کا طعنہ وزیراعظم نے ہمیں دیا اس کیس میں باہر جانے کی اجازت وزیراعظم نے خود دی، اس معاملے کا اصول محترم وزیراعظم نے خود طے کیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے صرف قانون طاقتور ہے کوئی انسان نہیں، اب عدلیہ آزاد ہے، ہم نے دو وزرائے اعظم کو سزا دی اور ایک کو نااہل کیا، ایک سابق آرمی چیف کا جلد فیصلہ آنے والا ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم صاحب کا اعلان خوش آئند ہے مگر ہم نے امیر غریب سب کو انصاف فراہم کرنا ہے، ججز اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں، ججوں پر اعتراض کرنے والے تھوڑی احتیاط کریں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہیں اور ہمارے منتخب نمائندے ہیں، وزیراعظم کو اس طرح کے بیانات دینے سے خیال کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدلیہ اپنا کام پوری دیانت داری اور فرض سمجھ کررہی ہے، ججز اور عدلیہ کی حوصلہ افزائی کریں، ہم بغیر وسائل کے کام کر رہے ہیں، جب وسائل فراہم کیے جنائیں گے تو مزید بہتر کام ہوگا۔گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے نوازشریف کی بیرون ملک روانگی کے بعد تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ ملک میں طاقتور اور کمزور لوگوں کے لیے الگ الگ قانون ہے، چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ انصاف دے کر اس ملک کو آزاد کرائیں۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان نے اس وقت یہ بات کہی جب میاں محمد نواز شریف کو لاہورہائیکورٹ کی جانب سے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی جس پر میاں شہباز شریف اور نواز شریف نے خود بھی اسٹیمپ پیپر پر دستخط کرکے عدلیہ کو یقین دلایا کہ صحت ٹھیک ہوتے ہی وطن واپس آئینگے۔

دلچسپ امریہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے خود ہی کہا تھا کہ مجھے میاں نواز شریف پر رحم آیا اس لئے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دی،اب اس کے بعد وزیراعظم کا جسٹس صاحبان کو مخاطب کرکے انصاف کو برابری کی بنیاد پر فراہم کرنے کا درس دینا سمجھ سے بالاتر ہے شاید وزیر اعظم اپنے من پسند فیصلہ کی توقع کررہے تھے کہ جو بانڈ کی شرط ہے اس کے مطابق فیصلہ آئے گا تاکہ حکومتی مؤقف کی تائید ہوسکے اور جو شرط حکومت نے رکھی ہے وہ عین قانون کے مطابق نہ سہی مگر کسی حد تک ایک ملزم کو پابند کرنے کیلئے ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ خواہشات پر ہی فیصلے آئیں۔اگر وزیراعظم یا کابینہ کے وزراء کونوازشریف کی واپسی سے متعلق کچھ خدشات تھے تو وہ اس پر اپناموقف واضح کرتے کیونکہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان رحمدلی کا مظاہرہ کررہے ہیں تو دوسری طرف عدلیہ سے شکایت کرتے دکھائی دے بھی رہے ہیں۔

کابینہ میں شامل بعض وزراء بھی نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حامی نہیں تھے جن میں چند ایک نے کھل کر یہ بات کہی اور کابینہ اجلاس کے دوران بھی اس امر کا اظہار کیا۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان جارحانہ موڈ میں دکھائی دے رہے تھے انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو آڑے ہاتھوں لیاکہ اسلام آباد مارچ میں سارے بیروزگار سیاستدان ایک ساتھ دکھائی دے رہے تھے جبکہ شہباز شریف کو شوبا ز قراردیااور بلاول کی نقل بھی اتاری اور ساتھ ہی ایک بار پھر یہ بات دہرائی کہ ملک کو لوٹنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑونگا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان کو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومتی کارکردگی پر توجہ زیادہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت حکومتی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے جس پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکے۔اور نہ ہی تیرہ ماہ کے دوران کوئی خاص اہداف پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے منشور کے مطابق حاصل کئے ہیں لہٰذا گڈگورننس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے جوکہ وقت اور حالات کا تقاضہ بھی ہے جس کا وعدہ عوام سے خاص کر کیا گیا ہے۔ بجائے عدلیہ پر سوال اٹھانے کے،اداروں کے درمیان بہترین ہم آہنگی پیدا کرنے ضرورت پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ قومی ادارے احسن طریقے سے کام کرسکیں،اس کی بڑی ذمہ داری پارلیمنٹ پر عاہد ہوتی ہے کیونکہ وہ بہترقانون سازی کے ذریعے اداروں کو مستحکم بناسکتی ہے۔