ملک میں شفاف احتساب کے متعلق سب متفق دکھائی دیتے ہیں سیاسی جماعتوں سے لیکر حکمران، اپوزیشن جماعتیں یہاں تک عوام بھی یہی بات کرتی ہے کہ ملک کو کرپشن سے پاک کیاجائے مگر یہ اتنا آسان معاملہ نہیں کہ بیک وقت سب پر ہاتھ ڈال کر پیسہ قومی خزانے میں منتقل کیا جائے۔ حقائق کی بنیاد پر ملک میں جس دن احتساب شروع ہوا تو شاید ہی کوئی بچ سکے ہمارا نظام اس قدر کرپٹ ہوچکا ہے کہ عام لوگ بھی اس میں مجبوری کے تحت پھنس کر رہ گئے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین پر اربوں روپے کے کرپشن کے الزامات ہیں تو عوام پر بجلی چوری، گیس چوری کی الزامات ہیں مگر یہ تمام مسئلہ نظام پر ہی آکر رک جاتا ہے کہ آپ ملک میں کس طرح کا نظام چاہتے ہیں تاکہ عام لوگ بھی مخلصانہ اور ایمانداری کے ساتھ وفاداری نبھائیں کیونکہ یہاں حلف اٹھاکر جو کام کیاجاتا ہے اس کی مثالیں خود سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر اپنے بیانات کے ذریعے دیتے ہیں اور یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آرہا ہے البتہ تبدیلی نہیں آئی۔
میاں محمد نواز شریف پر کرپشن کے الزامات ہیں جبکہ انہیں نااہل بھی قرار دیا گیا اور وزارت عظمٰی کا منصب بھی ان سے چلا گیا، اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری یا پرویز مشرف ہوان پر بھی کیسز ہیں، آصف علی زرداری جیل میں ہیں دیگر ایسی شخصیات جو بیرون ملک ہیں اور جو ملک میں موجود ہیں بعض باہر آزادانہ گھوم رہے ہیں کیونکہ دست شفقت اس وقت ان پر رکھا گیا ہے۔ جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ احتساب کی شفافیت کوکس طرح یقینی بنایا جائے کہ کسی کو بھی اس پر شک وشبہہ نہ ہومگر اس کیلئے بڑے جگر اور قربانی کی ضرورت ہے جوکہ ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں دینے کیلئے تیار نہیں تو عوام سے کس طرح توقع رکھی جائے کہ جنہیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ہے کہ وہ ایمانداری کامظاہرہ کریں۔ جب نظام بہتر ہوگا ریاست ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے گی، قومی خزانے کو عوامی امانت سمجھ کر اس کا استعمال کرے گی،عام لوگوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم ہوں گی تو ایک مہذب معاشرے کی تشکیل یقینی ہوجائے گی مگر بدقسمتی سے یہ محض خواب ہے اس کے سوا کچھ نہیں امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ جس احتساب اور تبدیلی کا نعرہ لیکر موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے آج وہ اپنے ہی فیصلوں پر ندامت کی بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرا رہا ہے جس کی ایک مثال میاں محمد نواز شریف کی بیماری ہے۔
میڈیکل بورڈنے جب رپورٹ پیش کی تو یہی کہاگیا کہ نواز شریف شدید بیمارہیں، جنہیں بیرون ملک علاج کیلئے بھیجنا ضروری ہے۔ حکومتی میڈیکل بورڈ بھی اس پورے عمل میں شریک تھی جبکہ وزیر صحت پنجاب اس دوران نواز شریف کی صحت کے حوالے سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ کررہی تھیں۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ خود وزیراعظم عمران خان نے یہ بات کہی کہ میاں محمد نواز شریف بیمارہیں ان کی صحت پر کوئی بیان بازی نہ کی جائے بلکہ چار قدم آگے بڑھ کر انہوں نے خود کہاکہ نوازشریف کو رحم کھاکر علاج کیلئے چھوڑا جبکہ ایک شرط بانڈ کا رکھا گیاجس کے بعد معاملہ عدالت میں چلاگیا اور وہاں سے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی۔ ابھی نواز شریف کے علاج سے متعلق ٹیسٹ جاری ہیں،بیماری کی تشخیص ہورہی ہے جس کے بعد پتہ چلے گا کہ انہیں کونسی بیماریاں لاحق ہیں۔ان تمام نتائج کی برآمدگی سے قبل وزیراعظم عمران خان نے عدلیہ کے فیصلہ پر سوال اٹھایا تو دوسری جانب بیماری پر بھی شک وشبہہ کا اظہار کیا کہ میاں صاحب جہاز کو دیکھ کر ٹھیک ہوگئے یا پھر لندن کی ہوا لگ گئی۔
بہرحال وزیراعظم عمران خان کو رپورٹس کے آنے تک انتظار کرنا چاہئے اور عدالتی مدت پوری ہونے تک انہیں صورتحال پر نظر رکھنی چاہئے،اس سے قبل کچھ بھی کہنا غیر ضروری ہے جس سے خود آج حکومتی میڈیکل بورڈپر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں جبکہ حکومتی رحمدلی والی بات کو بھی شک وشبہہ کے طور پر دیکھاجارہا ہے۔نتیجہ وہی آکر پہنچتا ہے کہ ہمارے یہاں نظام انتہائی کمزور ہے، واقعی دوپاکستان ہیں غریب اور امیر کیلئے الگ الگ قانون بنائے گئے ہیں مگر اس کی سب سے بڑی ذمہ دار پارلیمنٹ پرہے جو قانون سازی وہ کرتی ہے، اسی کے تحت تمام ادارے چلتے ہیں۔ خدارا نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ناکہ سیاسی اختلافات میں اس قدر آگے بڑھا جائے کہ انتقام درانتقام کی سیاست پروان چڑھے اور جو بنیادی مسائل عوام کودرپیش ہیں انہیں نظر انداز کیا جائے،اس سے ملک میں کبھی بھی بہتری نہیں آئے گی مزید بحرانات پیدا ہونگے جس کی ذمہ دار صرف اور صرف سیاسی جماعتیں ہونگی خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔