|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2019

سابق صدر و آرمی چیف جنرل (ر) پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ رکوانے کیلئے وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے۔وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے دائر درخواست میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت کو 28 نومبر کو کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست بیرسٹر سلمان صفدر کے ذریعے دائر کی گئی ہے۔اپنی درخواست میں وزارت داخلہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ سنگین غداری کیس میں پرویزمشرف کے شریک ملزمان کو ٹرائل میں شامل ہی نہیں کیا گیا، پراسیکیوشن ٹیم کو 23 اکتوبر کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا مگر 24 اکتوبر کو اس نے بغیر اختیار کے مقدمہ کی پیروی کی۔

وزارت داخلہ کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن ٹیم نے تحریری دلائل بھی جمع کرائے جس کا اسے اختیار نہ تھا، خصوصی عدالت نے نئی پراسیکیوشن ٹیم نوٹیفائی کرنے کا موقع دیے بغیر ہی فیصلہ محفوظ کرلیا اور اسے سنانے کیلئے 28 نومبر کی تاریخ مقرر کردی۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کو پراسیکیوشن ٹیم تبدیل کرنے کا اختیار ہے، خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا 19 نومبر کا حکم نامہ کالعدم قرار دیا جائے، عبوری ریلیف کے طور پرخصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو حتمی فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے 19 نومبر کو سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 28 نومبر کو سنایا جانا ہے۔یاد رہے کہ سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔مقدمے میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے۔عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔خصوصی عدالت کی طرف سے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل دینے کیلئے آئندہ سماعت پر طلب کر لیا گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کیس کی ابتدئی سماعت کی۔ پرویز مشرف نے اپنی درخواست میں وفاقی حکومت، وزارت قانون و انصاف، ایف آئی اے اور خصوصی عدالت کے رجسٹرار کو فریق بنایا ہے۔درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ خصوصی عدالت نے 19 نومبر کو موقف سنے بغیر غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے، میں بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیر علاج ہوں اورعدالت میں اپنا موقف پیش نہیں کرسکا۔

ہائی کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم معطل کیا جائے، غداری کیس کی سماعت تندرست ہونے تک ملتوی اور صحت کے تعین کے لیے غیر جانبدار میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا جائے۔پرویز مشرف نے اپنی درخواست میں یہ استدعا بھی کی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق کیس کو دوبارہ سماعت کیلئے شروع کی جائے۔حکومت کی جانب سے پرویز مشرف کیس میں فریق بننے کے بعد بعض حلقوں کی جانب سے اسے تنقید کا سامنا کرناپڑرہا ہے کیونکہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے ایک تقریب کے دوران اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ہمیں اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہے۔

بہرحال اس کیس میں فریق بننے کے بعد ایک پاکستان کی بنیاد کس طرح رکھی جاسکتی ہے۔ حکومت کے اس طرح کے فیصلوں اور رویوں سے قطعاََ یہ نہیں لگتا کہ وہ ایک پاکستان بنانے کی جانب ملک کو لے جارہا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ المیہ رہا ہے کہ حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو زیادہ ترجیح دی بجائے یہ کہ ریاست کو مضبوط بنائیں،جب تک قانون سب کیلئے ایک نہیں ہوگا اور اس پر عمل نہیں کیاجائے گا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔یہ صرف موجودہ نہیں بلکہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے دور میں بھی دیکھنے کو ملا ہے اس لئے صرف دعوؤں کے ذریعے حکمران جمہوریت کی مضبوطی کی باتیں نہ کریں بلکہ اس کا عملی طور پر ثبوت دیں کہ ملک میں قانون سب کیلئے ایک ہے۔