|

وقتِ اشاعت :   December 3 – 2019

کوئٹہ بلوچستان کا دارالخلافہ ہے بدقسمتی سے سب سے زیادہ آلودگی اسی شہرمیں پائی جاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقامی ادارے آلودگی سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ ابلتے ہوئے گٹر بند کردیں اور انسانی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے شہر کو صاف ستھرا رکھ سکیں۔ شہر میں کہیں بھی صفائی ستھرائی کاکام ہوتانظر نہیں آتاالبتہ کبھی کبھار شہر کے چند ایک علاقوں میں صفائی مہم دکھائی دیتی ہے اس کے علاوہ صفائی مہم محض دعویٰ ہی ثابت ہورہی ہے، کچرا اٹھانے والی گاڑیاں بھی شاذو نادر شہر کے سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔ سنیٹری کارکن سڑکوں اور گلیوں کو صاف کرتے نظر نہیں آتے وہ سرکاری ملازم ہیں لیکن سرکاری کام ہی نہیں کرتے۔ کوئٹہ شہر کو صاف ستھرا رکھنے اور ماحولیاتی آلودگی سے بچائے رکھنے کی پہلی ذمہ داری کوئٹہ میٹروپولیٹن کارپوریشن پر عائد ہوتی ہے۔

اگر میٹروپولیٹن کے آفیسران اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیں تو کوئٹہ شہر کی حالت بہتر ہوسکتی ہے،پاکستان کا سب سے زیادہ آلودہ شہر کوئٹہ ہے جو کسی زمانے میں لٹل پیرس کہلاتا تھا مگر اب گندگی کے ڈھیر اور آلودگی کی شدید لپیٹ میں ہے۔اس سے قبل کوئٹہ شہر کی صفائی کیلئے جاپان حکومت کی جانب سے جو گاڑیاں فراہم کی گئیں تھیں وہ کہاں ہیں،کس حال میں ہیں اگر خراب ہیں تو ان کی مرمت کیوں وقت پر نہیں کی جاتی جبکہ پہلے بہت سی گاڑیاں کچرا اٹھاتے ہوئے نظر آتی تھیں شاید اب سب کی سب گاڑیاں خراب ہیں،اگر ایسا ہے تو یہ میونسپل انتظامیہ کی نا اہلی ہے کہ ان کی وقت پر مرمت نہیں کی گئی۔افسوس کہ گزشتہ دور حکومت میں جب بلدیاتی انتخابات ہوئے تو یہ امید ہوچلی تھی کہ مقامی نمائندوں کو اختیار ملنے کے بعدبہتر نتائج آئینگے مگر افسوس ان کی نااہلی کی وجہ سے کوئٹہ شہر مزید مسائل سے دوچار ہو گیا، ہٹ دھرمی کی ا نتہاء دیکھئے، ماضی کے میئر اور ان کی ٹیم اپنی مدت کے دوران آہ وبکا کرتے دکھائی دیئے جیسا کہ انہوں نے بہت بڑا کارنامہ سرانجا دیا ہے اور جو کام رہتے ہیں انہیں پورا کرکے ہی جائینگے مگر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ میئراور اس کی ٹیم برملا یہ اظہار کرتی نظر آئی کہ وہ بے اختیار تھے، انہیں کام کرنے سے روکا گیا۔

پھر وقت میں مزید توسیع کس بات کی مانگی جارہی تھی جبکہ اتنا عرصہ کرسی پر براجمان ہونے کے باوجود شہر سے گندگی کا صفایا نہیں کیا جاسکا تو دیگر کیا ضروری کام انہیں کرنے تھے۔ بہرحال سیاست کو پہلے ایک مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا جس میں سیاسی کارکنان تک ایمانداری سے کام کرتے تھے مگر ہمارے ہاں اب یہ تجارت کا روپ دھار چکی ہے۔ اختیارات ملنے کا مقصد پوری سرکاری مشینری اور طاقت کو استعمال کرتے ہوئے بھرپور طریقے سے پیسے کمانا شامل ہے جس کی واضح مثال گزشتہ چند دہائیوں سے لگایا جاسکتا ہے کہ جن سیاستدانوں کے پاس کچھ نہیں تھاوہ لاکھوں روپے کے مالک بن گئے، جبکہ لاکھوں روپے والے کروڑوں اور ارب پتی بن گئے ہیں،بعض نے بڑی جائیدادیں بنائی ہیں اور یہ سب کچھ سیاست اور حکمرانی میں آکر عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر کیا گیا ہے۔

چھوٹے سے چھوٹے کاموں کیلئے بھی عوام کو محکموں کے اہلکار اور آفیسران کے یہاں چکر لگالگاکر خوار ہونا پڑتا ہے باوجود اس کے ان کے کام نہیں ہوتے۔عوام کو یہ شکایت ہمیشہ رہتی ہے کہ کوئٹہ شہر کا کوئی والی وارث نہیں، کوئی بڑا آدمی‘ سیاستدان‘ سرکاری افسر یا نامور اور نامی گرامی شخصیات اس کو اپنا شہر ہی نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھتے تو میونسپل حکام کی درگت بنائی جاتی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے اس شہر کے قدیم اور مستقل باشندے کوئٹہ کو اپنا شہر سمجھیں اور اس کی صفائی ستھرائی میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ کوئٹہ اب بھی دوبارہ ہل اسٹیشن بن سکتا ہے جبکہ گندگی کے صاف ہونے سے موذی امراض کے خاتمہ میں بھی مدد ملے گی۔