|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2019

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ حکومت کونیب قانون تبدیل کرنے کا کہا تھا لیکن کچھ نہیں کیا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ جرم ثابت ہونے سے پہلے سزا دے دیں۔آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت کی دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاثردیا گیا سپریم کورٹ نے نیب قانون میں سختی کردی۔ آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے سختی نہیں کی صرف قانونی پوزیشن واضح کی تھی۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ سمیت دیگر ججزقانون کے دائرے میں رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں حکومتوں نے اپنے مخالفین کو ہمیشہ دبانے کیلئے اداروں کو استعمال کیا۔ ایک واضح مثال جنرل پرویزمشرف کا دور ہے جس نے نیب کا ادارہ بنایا جس سے یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ اس کا مقصد مخالفین کوزیر کرنا ہے اور اس دورمیں کیا کچھ ہوا سب کے سامنے ہے۔

نیب میں جنرل پرویزمشرف نے من پسند افراد کو بھرتی کیا تاکہ وہ ا پنے سیاسی اہداف حاصل کر سکیں،معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر سیاسی وفاداریاں بھی خریدی گئیں، اس وقت کے مسلم لیگ میں سیاسی شخصیات کی شمولیت واضح ثبوت ہے کہ جن پر نیب نے الزامات لگائے اور بعض کے خلاف مقدمات درج کیے اور کئی ایک معروف رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا، حراست کے دوران ان کی تذلیل بھی کی گئی۔پرویزمشرف کے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کے لئے انتظامی امور تک کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا۔نیب کا ایک ادنیٰ سا آفیسر بھی حکومت کے کسی محکمے کے سیکرٹری کو یہ حکم دیتا تھا کہ فلاں دستاویزات لے کر حاضر ہوجاؤ،ایسا معلو م ہوتا تھا کہ نو آبادیاتی نظام دوبارہ رائج ہوگیا ہے اور صورتحال یہ تھی کہ بڑا افسر نیب کے ایک ادنیٰ سے افسر کے سامنے بے بس دکھائی دیتا تھا۔ ان پندرہ سالوں میں نیب کی کاردکردگی اورغلط اقدامات کا یہ اثر پڑاکہ انتظامیہ میں ڈسپلن نام کی چیز غائب ہوگئی، ٹھگوں کی چاندی ہوگئی، ٹھگوں کے گروہ کو کہا گیا کہ فلاں کے خلاف درخواست دائر کرواور نتیجہ یہ نکلا کہ نیب نے چند ایک ارب روپے وصول کیے،ایک آدھ کو معمولی سزائیں ہوئیں لیکن بدلے میں کرپشن میں مزید اضافہ ہوگیا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی افسر کا سماج میں کوئی کردار اور اثر و رسوخ نہ ہو وہ کوئی خدمت سرا نجام نہیں دے سکتا۔اس کے لئے ضروری ہے کہ سخت سے سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر ایماندار انہ طریقے سے عمل کیا جائے۔ یہ تمام کام صرف مقامی لوگ کر سکتے ہیں، وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے سماج کے سامنے جوابدہ ہیں۔ہونا تو یہ چائیے کہ کرپشن میں ملوث افراد کی تمام جائیداد ضبط کی جائے اوران کو تا حیات جیل میں رکھا جائے یا کم از کم چالیس سال قید کی سزا دی جائے تب کرپشن میں کمی کے امکانات ہوں گے۔بہرحال یہ وہ تمام صورتحال ہے جس سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔قومی اداروں کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی وجہ سے آج اداروں کے اچھے کام کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ماضی میں جوکارنامہ سرانجام دیئے گئے وہ تاریخ بن چکی ہے۔

پارلیمنٹ اجلاس کے دوران خود سیاسی جماعتوں کے اراکین اپنے دور کی مثالیں دیتے رہتے ہیں کہ ہم سے بہت سی غلطیاں ہوئیں ہیں جن کا خمیازہ آج ہم سزاکے طور پر بھگت رہے ہیں مگر اسے ٹھیک کرنا بھی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ موجودہ حکومت کا بھی یہ مؤقف بالکل درست ہے کہ جن کیسز کا سامنا نوازشریف اور زرداری کررہے ہیں یہ انہی کے دور کے ہیں موجودہ حکومت کے نہیں۔ قومی اداروں میں بہترین اصلاحات لاکر انہیں ٹھیک کیاجاسکتا ہے جو صرف مشرف نہیں بلکہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی خوب اس طرح کے عمل سے فائدہ اٹھایا اور اداروں کو سیاسی بنیادوں پر استعمال کرنے کے نتائج اب دونوں بڑی جماعتیں خود بھی بھگت رہی ہیں لہٰذا قومی اداروں کو آزاد اور قانونی طریقے سے کام کرنے دیا جائے تاکہ ملک میں قانون کی بالادستی سمیت انصاف کا بول بالا ہوسکے۔