ایک کے بعد ایک صفحہ اور نام جو بڑھتے ہی چلے گئے: پاکستانی تفتیش کاروں کے مطابق ملک بھر کے مختلف شہروں اور قصبوں سے سوا چھ سو سے زائد مقامی لڑکیاں دلہنیں بنا کر چینی مردوں کو بیچ دی گئیں، جو انہیں اپنے ساتھ چین لے گئے۔
گوجرانوالہ کی مقدس اشرف جس کی سولہ برس کی عمرمیں شادی اس کے والدین نے ایک چینی شہری سے کر دی تھی۔ چین جانے کے پانچ ماہ بعد مقدس واپس پاکستان آئی تو وہ حاملہ تھی، اپنے شوہر کی طرف سے تشدد سے دل برداشتہ اور وہ اپنے چینی خاوند سے طلاق لے لینے کی خواہش مند تھی
پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے بدھ چار دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ اعداد و شمار اس فہرست میں شامل ہیں، جو اس نیوز ایجنسی کے صحافیوں نے خود دیکھی ہے اور جو پاکستانی تفتیشی ماہرین نے تیار کی ہے۔
یہ تفتیش پاکستانی خواتین کی چینی مردوں سے شادیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کے پیش نظر اور اس خدشے کے تحت کی گئی کہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ان پیشہ ور گروہوں کی روک تھام کی جا سکے، جو پاکستان کے غریب گھرانوں کی لڑکیوں کو خوشحالی کے وعدے کر کے اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اپنی نوعیت کے اولین ٹھوس حقائق
پاکستان سے خواتین کی چین اسمگلنگ کے کئی واقعات سامنے آنے کے بعد یہ چھان بین گزشتہ برس 2018ء میں شروع کی گئی تھی۔ اس تفتیش کے اب تک جو نتائج سامنے آئے ہیں، وہ ایسی متاثرہ خواتین کی تعداد کے حوالے سے اپنی نوعیت کے اولین ٹھوس حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اے پی نے لکھا ہے کہ پاکستانی خواتین کی اس ٹریفکنگ سے متعلق تفتیشی مہم اس سال جون کے بعد سے زیادہ تر روکی جا چکی ہے۔ اس تفتیش سے واقف حکام کے مطابق اس کا سبب حکومتی اہلکاروں کا مبینہ دباؤ ہے، جن کو خدشہ ہے کہ ایسے واقعات کی تفصیلات منظر عام پر آنے سے اسلام آباد کے بیجنگ کے ساتھ مالیاتی حوالے سے بہت فائدہ مند تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔
اکتیس چینی ملزم بری
اس طرح کے مبینہ جرائم کا ایک بڑا واقعہ اسی سال اکتوبر میں اس وقت شہ سرخیوں کی وجہ بنا تھا، جب فیصل آباد میں ایک عدالت نے 31 چینی شہریوں کو خواتین کی ٹریفکنگ سے متعلق الزامات سے بری کر دیا تھا۔
اس مقدمے میں تفتیشی نتائج سے واقف پولیس اہلکاروں اور چند عدالتی حکام کے مطابق کئی ایسی خواتین، جنہوں نے شروع میں تو پولیس کو انٹرویو دیے تھے، بعد ازاں دھمکیاں دیے جانے یا پیسے دے کر زبردستی خاموش کرا دیے جانے کے بعد اس مقدمے میں چینی ملزمان کے خلاف بیانات دینے سے مکر گئی تھیں۔ ان خواتین میں سے صرف دو نے اس لیے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تفصیلی بیانات دیے کہ بعد میں انہیں خطرناک صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
‘ایف آئی اے پر حکومتی دباؤ‘
پاکستان کی ایسی کئی لڑکیوں کو نام نہاد شادیوں کے بعد چین بھیجے جانے سے بچانے اور کئی پاکستانی والدین کو اپنی بچیاں چین سے واپس بلانے میں مدد دینے والے ایک مسیحی سماجی کارکن سلیم اقبال نے بتایا، ”حکومت نے اپنا دباؤ استعمال کرتے ہوئے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے اہلکاروں کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ خواتین کی ٹریفکنگ کرنے والے گروہوں کے بارے میں چھان بین نہ کریں۔‘‘
سلیم اقبال نے ایک انٹرویو میں مزید بتایا، ”چند ایف آئی اے اہلکاروں کو تو ٹرانسفر بھی کر دیا گیا۔ جب ہم نے حکمرانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، تو انہوں نے اس مسئلے پر کوئی دھیان ہی نہ دیا۔‘‘
سرکاری محکمے بھی خاموش
اے پی کے مطابق اس نے اپنی اس رپورٹ کے سلسلے میں اسلام آباد میں داخلہ اور خارجہ امور کی ملکی وزارتوں سے خواتین کی ٹریفکنگ کی ایسی شکایات کے بارے میں ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو وزارتی نمائندوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
دوسری طرف بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ایسی کسی فہرست سے بے خبر ہے، جس میں شادیوں کے نام پر پاکستان سے چین اسمگل کی گئی خواتین کی کوئی بات کی گئی ہو۔
اے پی کے مطابق پاکستانی ہوائی اڈوں سے بیرون ملک جانے والے ملکی شہریوں کے ڈیجیٹل ریکارڈ کے مطابق پاکستان سے مجموعی طور پر 629 ایسی خواتین چین گئیں، جو خود تو پاکستانی شہری تھیں لیکن جن کے شوہر چینی تھے۔
ایسی شادیوں میں سے زیادہ تر 2018ء سے لے کر اس سال اپریل تک کے درمیانی عرصے میں ہوئی تھیں۔ ایک پاکستانی اہلکار کے مطابق یہ تمام پاکستانی لڑکیاں ان کے گھر والوں کی طرف سے عملی طور پر چینی مردوں کو ‘بیچ دی‘ گئی تھیں۔
اس اہلکار نے ایک انٹرویو میں بتایا، ”ایسی شادیاں کروانے والے ‘سہولت کار‘ ایسی ہر شادی کے بدلے دلہا سے پاکستانی چار ملین روپے سے لے کر 10 ملین روپے تک کی رقم حاصل کرتے ہیں، جو 25 ہزار امریکی ڈالر سے لے کر 65 ہزار ڈالر تک بنتی ہیں۔ ان رقوم میں سے دلہن کے طور پر کسی بھی لڑکی کے لیے اس کے خاندان کو اکثر صرف دو لاکھ روپے (1500 امریکی ڈالر) تک ہی ادا کیے جاتے ہیں۔‘‘