|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2019

پاکستان میں معاشی تنزلی کی بنیادی وجہ کرپشن ہے جس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی جماعتوں میں کاروباری طبقہ کا اثر ورسوخ ہے جس نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھایا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے کہ ملک کس طرح دیوالیہ ہوکر رہ گیا ہے۔ جس طرح سے قرضے لئے گئے اور خرچ کئے گئے،یہ کسی سے پوشیدہ نہیں جس کا چرچا عام ہے ایک آدھ پروجیکٹ کے علاوہ صنعتکار سیاستدانوں نے اپنے کاروبار کو انہی پیسوں سے وسعت دیا اور اس طرح سیاست میں اسی رقم کو بے دریغ خرچ کرتے ہوئے اقتدار تک رسائی حاصل کی۔

ایک دور تھا جب ملک میں سیاسی جماعتوں کی جڑیں عام ورکرز میں موجود رہتی تھیں اور ورکرز بھی انتہائی دیانتدار ہوا کرتے تھے جو اپنی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک پختہ وژن اور نظریات کے ساتھ وابستہ ہوتے تھے اور پارٹی قائدین کی مخلصی کی نظیر نہیں ملتی تھی المیہ یہ رہا کہ جب یہ صنعتکار چور دروازوں سے سیاست میں داخل ہونا شروع ہوگئے تو پورے سیاسی نظام کاحشر نشرکردیا، نہ صرف خود بلکہ اداروں کے اندر کرپشن شروع کی گئی جس کی مثالیں ہمارے قومی اداروں کا زوال ہے جہاں پر پاکستان اسٹیل مل کو بہتر بنانا تھا تو اس کی جگہ اپنے اسٹیل مل لگائے گئے، پی آئی اے کو بہترین ائیرلائن بنانا چاہئے تھا تو اس کی جگہ انہی سیاستدانوں نے اپنے پرائیویٹ ائیرلائنز بنائے جہاں اور جس جگہ موقع ملا وہاں کرپشن کی گئی، کبھی تبادلہ وتقرریوں کی بولی لگائی تو کبھی اپنے من پسند شخصیات کو اہم عہدوں پر فائز کرتے ہوئے سیاسی اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہی عہدیداروں کے ذریعے کرپشن کی گئی۔

اگر صحیح معنوں میں احتساب کا عمل شروع ہوا تو چند ایک ہی جماعتیں ملک کے اندر رہ جائینگی دیگر سیاسی جماعتیں کرپشن کی زدمیں آئینگی مگر یہ صرف خواب ہی بن کررہ گیا ہے کیونکہ یہ کاروباری ذہنیت کی حامل شخصیات کسی نہ کسی طرح بڑی جماعتوں کے اندر داخل ہوجاتے ہیں اور سرمایہ لگاتے ہوئے پارٹی کے اندر سے مخلص کارکنان کو نکال کر اپنا نیٹ ورک نچھلی سطح تک بناتے ہیں اور اس طرح سے کوئی بھی سیاسی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو یہی عناصر اسے چلانا شروع کردیتے ہیں پھر نہ احتساب رہتا ہے اور نہ ہی انصاف کے ساتھ حکمرانی کی جاتی ہے۔

ملک کے تمام صوبوں میں کرپشن عروج پر ہے اس کی وجہ یہی حضرات ہیں جو سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ہیں جو کہ قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ایماندارآفیسران کو کام کرنے نہیں دیتے لہٰذا یہ امید کرنا کہ کچھ بہتر ہوگا تو یہ تب ہی ممکن ہے جب سیاسی جماعتوں کے اندر سے کرپٹ عناصر کو باہر نکال کیا جائے گا۔بلوچستان میں تو کرپشن کی داستانیں رقم کی گئی ہیں ہمارے ہاں اتنے منافع بخش پروجیکٹس پر پیسے بٹورے گئے جو شاید دیگر صوبوں میں ہواہو۔ بیسویں مثالیں موجود ہیں جن کی انہی اداریوں اور کالموں کے ذریعے نشاندہی کی گئی مگر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

ریکوڈک اور سیندک کو ہی لیا جائے کہ ان سے صوبہ کو کتنا فائدہ پہنچا اور کتنا نقصان ہوا،ریکوڈک جرمانہ کس طرح لگا صرف اس کی شفاف تحقیقات کی جائے تو بڑے بڑے برج گرجائینگے اور قانون کی گرفت میں آئینگے اور اگر ان کو سزا مل گئی تو بلوچستان میں کرپشن کا پھر آگے کوئی سوچ بھی نہیں سکے گامگر آغاز کون کرے؟ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے انسداد بدعنوانی کی مناسبت سے اینٹی کرپشن اسٹیبشلمنٹ بلوچستان اور نیب کے اشتراک سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک مثالی معاشرے کی بنیاد انصاف اور توازن پر مبنی ہوتا ہے، انسان کسی ایک معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت مختلف قوم، قبیلوں اور معاشروں میں تقسیم ہیں جہاں ہر معاشرہ اپنا ایک نظام بناتا ہے، اسلام نے ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت دیگر وزراء اعلیٰ، ہمارے یہاں وزرات عظمیٰ کے منصب پر بیٹھے قائدین یہ بات دہراتے آئے ہیں مگر عملی طور پر جزاوسزا کے قانون پر عمل نہیں کیا گیا۔اسی وجہ سے ملک اور صوبوں کے اندر ہر دوسرا پروجیکٹ کرپشن کی نظر ہوجاتا ہے ظاہر ہے کہ عوام کی رسائی تو کسی فائل تک نہیں ہوتی،یہ ہیراپھیری سرکاری آفس میں ہوتی ہے۔بہرحال ملک اور صوبہ سے کرپشن کا خاتمہ تب ہی ممکن ہوگا جب منصب اعلیٰ پر بیٹھے شخص اس منصب کو ایک امانت سمجھتے ہوئے ایمانداری سے کام کرینگے اور اپنے فرائض کے ساتھ خیانت نہیں کرینگے۔

قومی خزانے کو عوامی امانت سمجھتے ہوئے انسانی وسائل اور فلاح وبہبود کیلئے خرچ کرینگے،تب ہی ایک ایماندار اور مہذب معاشرہ تشکیل پائے گا یہ نہ صرف حکمران جماعتوں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ سیاست کو عوام کی خدمت سمجھ کرکریں نہ کہ ذریعہ آمدن بناکر ا سے کاروبار بنائیں۔ ماضی میں اس کی جو روایت رکھی گئی ہے اسے ختم کیا جائے۔