افغان طالبان نے امن معاہدے کے لیے امریکا کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی تصدیق کردی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ستمبر میں گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکرات معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل منسوخ کر دیئے تھے۔امریکا اور افغان طالبان کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی کے بعد امریکی صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کا اشارہ دیا تھا جس کے بعد امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن عمل زلمے خلیل زاد نے افغانستان کا دورہ کیا اور پھر وہ وہاں سے قطر پہنچے۔قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات 7 ستمبر کو شروع ہوئے تھے جو جاری رہیں گے۔
افغان میڈیا کے مطابق مذاکرات کے پہلے روز فریقین کے درمیان 4 گھنٹے کی طویل نشست ہوئی جس میں تشدد میں کمی لانے، انٹرا افغان مذاکرات اور جنگ بندی پر گفتگو ہوئی۔امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان تین ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہو اہے۔ افغان طالبان کو منانے کے لیے امریکی وفد اپنی کوششوں میں مصروف ہے اور قطر میں ایک بار پھر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہو ئے۔ افغانستان سمیت جنوبی ایشیا ء میں امن و امان کے معاملے پر مذاکرات تین ماہ کے تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہوئے ہیں۔ مذاکرات کے نتیجے میں افغانستان میں تشدد میں بتدریج کمی اور سیز فائر کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ ان مذاکرات میں تمام افغان فریقین کے درمیان مذاکرات کے لیے بھی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔امید کی جا رہی ہے کہ افغان طالبان کا یہ مرحلہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکی وفد نے افغان طالبان سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جارحانہ بیان اور نامناسب الفاظ پر معذرت بھی کی ہے۔
افغان طالبان اور امریکی وفد کے درمیان جاری مذاکرات میں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بھی دوحہ میں موجود ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی جمعرات کو اچانک افغانستان کا دورہ کیاتھا جہاں انہوں نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے طالبان کو امن معاہدے کے لیے ایک اور موقع دینے پر اتفاق کیا۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا عمل بحال کر دیا ہے اور امریکی افواج مکمل فتح یا ڈیل تک افغانستان میں ہی رہیں گی۔امریکی صدر کی جانب سے افغانستان پر مکمل فتح والی سوچ ہی اس امن عمل میں رکاوٹ کا باعث ہے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کو فتح کرنے کی نفسیات نے جنگ زدہ بنادیا ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ سنجیدگی کے ساتھ افغانستان میں امن اور استحکام پر زور دیاجائے جس میں تمام فریقین کی نہ صرف رضا مندی شامل ہو بلکہ خطے میں موجود ممالک بھی اس پر راضی ہوں کیونکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ افغان جنگ کے بعد پاکستان نے اس کا بڑا خمیازہ بھگتا ہے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال بھی ہوئی ہے۔ دوسری جانب بھارت کا افغانستان میں بڑھتا ہوااثر ورسوخ بھی باعث تشویش ہے جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں رچا تا ہے باوجود اس کہ پاکستان نے ہر طرح سے یہ کوشش کی ہے کہ افغانستان میں استحکام آنے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین حکومت بنے جو کسی بھی ملک کے زیر اثر رہ کر فیصلے نہ کرے اور جوپڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات میں خرابی کا سبب بھی نہ بنے لہٰذا زیادہ توجہ امن اور استحکام پر دینا چاہئے۔