وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ رواں برس چار کروڑ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔وفاقی دارالحکومت میں انسداد پولیو کی قومی مہم کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نے بچوں کوپولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے۔اس موقع پر انہوں نے کہا کہ انسداد پولیو کی قومی مہم میں 2 لاکھ 60 ہزار ورکرز حصہ لے رہے ہیں، ہم سب نے مل کر ملک سے پولیو کا خاتمہ کرنا ہے۔عمران خان نے والدین کو تلقین کی کہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ملک کے کئی شہروں سے آج بھی پولیو کے کیسز سامنے آ رہے ہیں، پولیو پر قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر ہمارے لیے مسائل پیدا ہوں گے۔واضح رہے کہ پولیو کے عالمی ادارے نے پاکستان کے پولیو پروگرام کی کارکردگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے گزشتہ دنوں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق رواں سال دنیا کے 80 فیصد پولیو کیسز پاکستان سے رپورٹ ہوئے۔
دوسری جانب یہ ایک خطرناک صورتحال ہے کہ پاکستان دنیا بھرمیں پولیو جیسے خطرناک موذی مرض کے حوالے سے سرفہرست آرہا ہے اس وقت پاکستان اور افغانستان وہ ممالک ہیں جہاں پولیو کے وائرس موجود ہیں جبکہ رواں سال تیزی کے ساتھ پولیو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں باوجود اس کے کہ مسلسل پولیو مہم بھی جاری ہے مگر وائرس کی روک تھام نہیں ہورہی۔ رپورٹ کے مطابق سال 2018 میں پاکستان پولیو کے خاتمے کے قریب تھا لیکن پاکستان میں پولیو قطرے پلانے کی مہم بری طرح ناکام ہوئی ہے اور ملک میں سیاسی طور پر پولیو کے خاتمے کے لیے اتفاق رائے کا فقدان پایا جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق کراچی کے ہر علاقے میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے اور پنجاب میں بھی پولیو پروگرام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ رواں سال ستمبر میں چلائی گئی پولیو مہم کی تاریخ میں سب سے زیادہ بچے قطرے پینے سے محروم رہے اور گزشتہ سال کی نسبت رواں سال مزید 25 اضلاع سے پولیو کیسز رپورٹ ہوئے۔آئی ایم بی کے مطابق گزشتہ 9 سالوں میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز میں 70 فیصد بچوں نے پولیو ویکسین ہی نہیں لی تھی۔
یہ ایک تشویشناک امر ہے جس پر حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ کس طرح سے پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کیلئے مزید اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ ہمارے بچے مستقل معذوری سے بچ سکیں اورپاکستان کا دنیا بھر میں ایک بہتر امیج ابھرے، ساتھ ہی یہ تمام مکتبہ فکر کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے عوام میں شعوروآگاہی پیدا کریں تاکہ پولیوجیسے خطرناک مرض کاخاتمہ یقینی ہوسکے۔پولیو کا بیشتر ممالک میں خاتمہ ہوچکا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اب تک یہ مرض موجودہے اس سے قبل ماضی قریب میں پولیو کے کیسز میں کمی دیکھنے کوملی مگر رواں سال کے دوران پھرنئے کیسز سامنے آنے کے بعد صورتحال مزید گمبھیر ہوگئی ہے باوجود اس کہ پولیو ورکرز نے حساس علاقوں میں جاکر پولیو کے قطرے پلائے اور اس دوران وہ دہشت گردی کا بھی نشانہ بنے مگر اس سب کے باوجود جب بھی پولیو مہم کا آغاز کیاجاتا ہے تو پولیو ورکرز خاص کر خواتین اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔
یہ ذمہ داری ہمارے سیاسی، مذہبی، سماجی حلقوں کی ہے کہ وہ پولیو جیسے موذی مرض کے خاتمے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کریں تاکہ ہمارے بچے مستقل معذوری سے بچ سکیں کیونکہ بعض عناصر پولیو قطرے کے متعلق منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور اس کیلئے باقاعدہ مہم بھی چلاتے ہیں لہٰذا ایسے عناصر سے حکومت کو سختی کے ساتھ نمٹنا چاہئے تاکہ پولیوویکیسیئن کے متعلق بعض علاقوں میں والدین کے ذہنوں میں موجود شکوک وشہبات کا خاتمہ کیاجاسکے اور وہ اپنے بچوں کو ویکسیئن پلائیں تاکہ ہمارا معاشرہ پولیو وائرس سے مکمل پاک ہوجائے۔