|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2019

بھارت میں شہریت کا متنازع بل 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظور کیا گیا اور 11 دسمبر کو ایوان بالا (راجیہ سبھا) نے بھی اس بل کی منظوری دے دی۔بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی جانب سے بل پیش کیا گیا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔تارکین وطن کی شہریت سے متعلق اس متنازع ترمیمی بل کو ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 12 گھنٹے تک بحث کے بعد کثرتِ رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔ایوان زیریں کے بعد ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں بھی اس متنازع بل کو کثرت رائے سے منظور کیا جاچکا ہے۔متنازع شہریت بل بھارتی صدر رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد باقاعدہ قانون کا حصہ بن گیا ہے۔

دوسری جانب بھارت میں شہریت سے متعلق متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، تاریخی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زائد طلبہ کے خلاف مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔مودی سرکار میں بھارت کی نام نہاد جمہوریت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور اب بنیادی حق کے لیے احتجاج کرنا بھی جرم بن گیا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک ہزار سے زائد طلبہ کے خلاف ایف آئی درج کی گئی ہے۔ایف آئی آر میں یونیورسٹی کے ہزار سے زائد نامعلوم طلبہ پر فسادات کرنے اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔وا ضح رہے کہ بھارت میں گزشتہ 3 ہفتوں سے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اترپردیش اور جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلباء پیش پیش ہیں۔ریاستی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں پیراملٹری فورس کے دستے تعینات کرکے دفعہ 144 نافذ کردی ہے جس کے باعث ریاست کے 21 اضلاع میں لاک ڈاؤن کی صورتحال ہے۔شمالی ریاست اترپردیش میں اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے 21 مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔اس سے قبل بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء کی جانب سے احتجاج پر 60 طلباء کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔مودی سرکار کا اصل مقصد ہندوریاست کو تقویت دینا ہے تاکہ اقلیتوں کو زیر دست لایاجاسکے۔

بھارت میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے اس نے اپنے نظریات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کالے قوانین بنا کر خاص کر مسلمانوں کو نشانہ بنارہی ہے، اسی طرح مقبوضہ کشمیر کی آزاد حیثیت کو ختم کرکے قانون سازی کے ذریعے اسے مرکز کے کنٹرول میں لایا گیا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرکے وہاں ہندوؤں کو آباد کرکے ڈیموگرافک تبدیلی کو یقینی بنایاجائے۔ نریندری مودی اپنے نظریات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تمام حدیں پار کرتا جارہا ہے جسے دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا ہے کیونکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ ایسے تمام قوانین کا مقصد مسلمانوں کی طاقت کو بھارت میں کمزور کرنا ہے۔ دنیا میں شہریت کا یہ دہرامعیار کاقانون کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دیتا عموماََ یہ ہوتا ہے کہ جنگ زدہ، معیشت زدہ لوگوں کو پناہ دی جاتی ہے مگر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صرف ہندوؤں کو شہریت دینا آرایس ایس کی نظریات اور منشور کو آگے بڑھانا ہے اور یہی سوچ بھارتی وزیراعظم نریندری مودی اور بی جے پی کی ہے۔ بہرحال بھارت اب زوال کی طرف بڑھ رہا ہے جو کچھ نریندرمودی بورہا ہے وہی کاٹ رہا ہے اور آگے چل کر بھارت مزید انتشار کی طرف بڑھے گا۔