|

وقتِ اشاعت :   January 6 – 2020

ملک میں معاشی ابترصورتحال سے لیکر بیڈگورننس، سیاسی مصلحت پسندی، مفاد پرستی، سیاسی بلیک میلنگ سمیت تمام غلط اقدامات کو ہر حکومت گزشتہ حکومتوں پر تھوپتی رہی ہے اور یہ ہماری سیاسی روایت کا حصہ بن گیا ہے۔ موجودہ حکومت بھی اس بات کو ماننے سے انکاری ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں میں موجودہ حکومت کے بعض اراکین بھی شامل تھے چونکہ یہاں سیاسی مفادات آڑے آتے ہیں جو کہ حکومت کیلئے نیک شگون ثابت نہیں ہوتا۔ حالیہ ایک مثال ہی لی جائے جب متحدہ قومی موومنٹ کو پیپلزپارٹی نے سندھ میں حکومت میں شامل کرنے کی پیشکش کی تو پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت متحدہ قومی موومنٹ کو منانے کیلئے پہنچ گئی حالانکہ ایم کیوایم نے فوری طور پر حکومت میں شمولیت کی حامی بھی نہیں بھری، وہی پرانے مطالبات سامنے رکھ دیئے کہ مقامی حکومتوں کو بہتر بنایا جائے یعنی کراچی سمیت دیگر شہر جہاں پر ایم کیوایم کی اکثریت ہے وہاں پر اسے مکمل اختیارات دئیے جائیں، ویسے ایم کیوایم کی ہمیشہ کراچی پر سیاسی کنٹرول کی خواہش رہی ہے اور یہ پوری بھی کی گئی مشرف سے لیکر پیپلزپارٹی نے سابقہ دور میں کراچی کو ایم کیوایم کے حوالے کردیا تھا۔ بہرحال سابقہ ایم کیوایم اور موجودہ ایم کیو ایم میں آج کل بہت تمیز پیدا کی جارہی ہے۔

مگر حقائق سب کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے ایک شخص کے کہنے پر پورا کراچی کنٹرول کیا جاتا تھا درجنوں مثالیں موجود ہیں کہ کراچی کو کس طرح سے تباہی کے دہانے تک پہنچادیا گیا،یہ صرف ایک صوبے کی بات نہیں بلکہ پورے ملک میں صوبائی حکومتوں کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت،منشور، وژن کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ پوزیشن کو ترجیح دی جاتی ہے جہاں پر اسکورنگ پوری ہوجاتی ہے انہی کے ساتھ ملکر حکومت تشکیل دی جاتی ہے جوکہ انہی کے شرائط کو من وعن تسلیم کرکے، ناکہ ملک اور صوبے کے وسیع تر مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا گزشتہ روز نیشنل سیکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کے دوران کہنا تھا کہ ماضی کی حکومتوں میں صرف ایسے ضلعوں کو ترجیح حاصل رہی جہاں عوامی نمائندوں کا حکومتی امور میں اثرورسوخ زیادہ تھا، انہوں نے کہا کہ ایک اچھی حکومت کے لئے شفافیت،احتساب اور مانیٹرنگ بنیادی عناصر ہیں، اب حکومتوں کو ذمہ دار بننا پڑے گا، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا نے عوام بالخصوص نوجوان نسل کو زیادہ فعال اور باخبر بنادیا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومتوں کو ذاتی خواہشات اور سیاسی مقاصد کے حصول کے ساتھ نہیں چلایا جاسکتا بلکہ اس کے لئے پروفیشنل ازم کی ضرورت ہے، ہمیں ذاتی مفادات سے باہر نکلنا ہوگا، سیاسی مخالفت سے نہ تو گھبرانا چاہئے اور نہ ہی دباؤ میں آنا چاہئے۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے اچھی باتیں کی ہیں مگر ماضی میں جن اضلاع میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے کیا آج وہ سیاسی شخصیات موجودہ کابینہ میں شامل نہیں ہیں،جتنے فنڈز ترقیاتی مد میں دیگر اسمبلی اراکین کو فراہم کئے گئے اسی طرح انہی ممبران کو بھی ملے مگر بلوچستان کی صورتحال سب کے سامنے ہے کہ اندرون بلوچستان آج بھی اسی طرح پسماندہ ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی مصلحت پسندی، جماعت کے اراکین کو ساتھ لیکر چلنا اور اتحادیوں کو خوش کرنا ہے۔

گزشتہ حکومت کے ایک وزیراعلیٰ بلوچستان نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے ضلع اور شہر کو اگر ترقی دی ہے تو اپنے فنڈز سے مگر اس سے کئی گنا زیادہ فنڈز دیگرایم پی اے حضرات کو بھی دیئے گئے۔اب یہ سوال ان سے پوچھنا چاہئے کہ کیونکر عوام کے پیسے ان پر خرچ نہیں کئے گئے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی اعتراف کیا کہ سب سے بڑا مشکل کام اتحادیوں کو خوش کرنا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اُن کا اشارہ کس طرف ہے کہ اگر اپنے اتحادیوں کوناراض کیا گیا تو حکومت گرانے میں ذرا دیر نہیں لگے گی۔ بہرحال وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان سے یہی توقع کرتے ہیں کہ ماضی کے وزراء اعلیٰ جس دباؤ میں فنڈز اور رقم ایم پی اے حضرات کو دیتے رہے ہیں جس کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوتا تھا، اس روایت کو ختم کرکے بلوچستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کو ترجیح دیں گے اور اس کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان کو بہترین کپتان کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ اس کی مثال دی جاسکے کیونکہ گزشتہ ادوار میں بلوچستان میں حکومتوں کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان حکومتی ارکان سمیت اپوزیشن جماعتوں کو بھی اتنے ہی فنڈز فراہم کریں تاکہ ترقیاتی اسکیمات منصفانہ اندازمیں آگے بڑھیں کیونکہ وہ صرف حکومت کے نہیں بلکہ پورے صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچی ہیں تاکہ وہ اپنے علاقوں کے مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کرسکیں جس کیلئے ضروری ہے کہ گڈگورننس، سیاسی یکجہتی، صوبے کے وسیع ترمفادات میں کام کیا جائے۔