|

وقتِ اشاعت :   January 9 – 2020

مشرق وسطیٰ میں جنگ کے سائے منڈلاتے دکھائی دے رہے ہیں اس وقت امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی شدت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے خدانخواستہ یہ تناؤ جنگی ماحول میں بدل گیا تو اس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کا امن متاثر ہوگا اسی لئے دنیا کے اہم ترین ممالک دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے کیلئے کوششیں کررہے ہیں تاکہ جنگی شدت میں کمی آئے۔ مگر امریکہ نے گزشتہ روز سخت ترین بیان جاری کرتے ہوئے بات چیت سے انکار کرکے مزید حملوں کا عندیہ دیا ہے۔

دوسری جانب ایران نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ ہر حال میں لینے کی بات کی ہے،فی الحال دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا ماحول دکھائی نہیں دے رہا مگر اس جنگ سے یقینا پاکستان بھی شدید متاثر ہوگا۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے کہا کہ جنگ کسی کے بھی مفاد میں نہیں، خطے میں تنازع سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے۔عمانی وزیر مذہبی امور سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں مزید کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ملاقات میں مشرق وسطیٰ کی تازہ صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی۔وزیراعظم نے کہا کہ ایران امریکہ کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے تنازعات ختم کرنے کے لیے بھی کاوشیں کیں۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا پارٹنر بنے گا اور خطے میں امن اور تنازعات کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔دوسری جانب بدھ کی صبح ایران نے عراق میں موجود امریکہ کے دو فوجی اڈوں پر حملے کیے۔ امریکہ کے محکمہ دفاع کے مطابق ایران سے 12 بلیسٹک میزائل داغے گئے جن سے الانبار اور اربیل میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا۔پینٹاگان کی طرف سے جاری ابتدائی بیان کے مطابق ایران نے امریکی اور اتحادی افواج کو نشانہ بنایا تاہم کسی جانی یا مالی نقصان کی تصدیق فی الحال نہیں کی گئی۔ ایران کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حملے میں 80 سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔

ایران کے امریکی فوجی اڈوں پر حملوں کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قوم سے خطاب کرنا تھا جس کو مؤخر کر دیا گیا۔ وائٹ ہاؤس کے گرد سیکیورٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔امریکی فیڈرل ایوی ایشن نے مسافر طیاروں کومشرق وسطیٰ کی فضائی حدود استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔خیال رہے کہ گزشتہ جمعے امریکہ نے عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈورن حملے میں ہلاک کر دیا تھا جو ایران امریکہ کشیدگی میں اضافے کا سبب بناہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ ہوئی تو پاکستان کے وہ علاقے زیادہ اس سے متاثر ہونگے جو ایرانی سرحد سے منسلک ہیں،اس سے قبل افغان جنگ کے دوران فاٹا اور قبائلی علاقے جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے اور پاکستان نے اس جنگ سے بہت نقصان اٹھایا۔ پاکستان کی جانب سے اس وقت پوری کوشش کی جارہی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی آئے جبکہ پاکستان نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اس جنگ میں اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔

کیونکہ ماضی میں عالمی امن کی خاطر پاکستان نے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ ملکر فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا تھا تاکہ خطے سے شدت پسندی کا خاتمہ ہو مگر یہ جنگ اس سے بالکل مختلف ہے اور دو ممالک کے درمیان بڑی جنگ کا خدشہ نظر آرہا ہے سوشل میڈیا پر اس پر کافی بحث ہورہی ہے کہ تیسری جنگ عظیم کا خطرہ پیدا ہورہا ہے۔بہرحال دنیا کے اہم ترین ممالک نے کردار ادا نہ کیا تو اس جنگ سے ایک نیا بحران جنم لے گا جو سب کیلئے خطرناک ہوگا۔