پاکستان میں کرپشن آج کی بات نہیں بلکہ ماضی کی حکومتوں نے بھی ریکارڈ توڑ کرپشن کئے ہیں جس کی واضح مثال یہ ہے کہ کاروباری شخصیات کو سیاست میں شراکت دار بنایا گیا تو سیاستدانوں نے ایوان کو صنعت بناکر رکھ دیا جس کے انتہائی منفی اثرات براہ راست ملکی معیشت پر پڑے۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جن قرضوں تلے ملک اس وقت ڈوبا ہوا ہے اس میں بڑے پیمانے پر کرپشن نہ صرف کی گئی ہے بلکہ اپنے کاروبار کو انہی قرضوں کے ذریعے ہی وسعت دی گئی جس کا خمیازہ آج غریب عوام بھگت رہی ہے۔ بہرحال موجودہ حکومت کیلئے بھی ایک اشارہ ہے کہ کرپشن کو روکنے کیلئے اقرباء پروری اور اپنوں کو نوازنے کی سیاست کو ترک کرتے ہوئے ملک اور عوام کے وسیع تر مفادات کے تحت اقدامات اٹھائے کیونکہ حکومت وقتی ہوتی ہے پھر یہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔
گزشتہ روز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2019 میں کرپشن سے متعلق رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ 2019 میں زیادہ تر ممالک کی کرپشن کم کرنے میں کارکردگی بہتر نہیں رہی اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے 180 رینکس میں پاکستان کا رینک 120 ہے۔رپورٹ کے مطابق 2019 میں پہلا نمبر حاصل کرنے والے ڈنمارک کا اسکور بھی ایک پوائنٹ کم ہو کر 87 رہا جبکہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کا انسداد بدعنوانی کا اسکور بھی کم رہا۔رپورٹ کے مطابق امریکا کا اسکور 2، برطانیہ، فرانس کا 4 اورکینیڈا کا انسداد بدعنوانی اسکور 4 درجہ ہوگیا جبکہ جی7کے ترقی یافتہ ممالک بھی انسداد بدعنوانی کی کوششوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی کرپشن روکنے کے لیے اپنی سفارشات بھی دی ہیں جس کے مطابق سیاست میں پیسے کے استعمال اور اثرورسوخ کو قابو کیا جائے۔بجٹ اور عوامی سہولیات ذاتی مقاصد اور مفاد رکھنے والوں کے ہاتھوں میں نہ دی جائیں۔
مفادات کے تصادم اور بھرتیوں کا طریقہ تیزی سے بدلنا قابو کیا جائے۔دنیا بھر میں کرپشن روکنے کیلئے لابیز کو ریگولیٹ کیا جائے۔الیکٹورل ساکھ مضبوط کی جائے اور غلط تشہیر پر پابندی لگائی جائے۔ شہریوں کو با اختیار کریں، سماجی کارکن، نشاندہی کرنے والوں اور جرنلسٹ کو تحفظ دیں۔کرپشن روکنے کے لیے چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کو علیحدہ کیا جائے۔اپوزیشن جماعتوں نے گورننس اور کرپشن کے معاملات پر بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے بعد حکومتی کارکردگی پر شدید تنقید کی ہے۔ اس رپورٹ میں صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے اہم ممالک شامل ہیں البتہ وہاں کرپشن اتنی زیادہ نہیں ہوتی جتنی پاکستان میں ہر سطح پر کرپشن ہوتی ہے جس کی وجہ سے گڈ گورننس قائم نہیں رہتا، مح کموں میں بھرتیوں کا عمل شفاف نہیں ہوتا بلکہ قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اپنوں کو نوازنے سمیت رقم لیکر نوکریاں اور عہدے فروخت کرنا بھی شامل ہے جس کی ماضی میں مثالیں موجود ہیں۔
ملک میں کرپشن کی ایک بڑی وجہ سیاست میں بڑے پیسے والی شخصیات کواقتدار میں ہمنوا بنانا اور ان کے اثر ورسوخ کو زیادہ وسعت دینا بھی ہے جوکہ رپورٹ میں بھی درج ہے مگر المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ملک کی اہم سیاسی جماعتوں نے وقتی مفادات اور اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کیلئے یہ راستہ اپنایا ہے آج بھی ایسے چہرے سیاسی جماعتوں میں دکھائی دیتے ہیں جن کاسیاست سے کوئی تعلق نہیں جو محض صنعت کار ہیں یا پھر دیگر کاروبار کرتے ہیں جو سیاسی جماعتوں پر نہ صرف سرمایہ کاری کرتے ہیں بلکہ ان کے اہداف حاصل کرنے کیلئے حریف جماعتوں کے ارکان کو تھوڑ کر اپنی جماعت میں شامل کرنے کے لیے پیسہ لگاتے ہیں جس کے نتائج کرپشن کے ذریعے سامنے آتے ہیں۔ ملک میں برسرِ اقتدار جماعت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کیلئے سیاسی مفادات کی بجائے ملک اور عوام کی ترجیحات کو اہمیت دے تاکہ عالمی اداروں کی رپورٹ میں کرپشن کی بجائے گڈگورننس میں اسکورنگ پر نام آسکے اور اس کی ایسی روایت رکھی جائے تاکہ آئندہ آنے والوں کیلئے بھی کرپشن کے راستے بند ہوسکیں۔