ملک میں مہنگائی کا تسلسل جاری ہے،ادارہ شماریات نے ملک میں مہنگائی کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ جاری کردی۔رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے میں چینی 3 روپے 60 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی اور اس کی قیمت 74 روپے 29 پیسے سے بڑھ کر 77 روپے 89 پیسے فی کلو ہوگئی۔محکمہ شماریات نے بتایا کہ ایک سال میں چینی 18 روپے 86 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی، ایک سال قبل چینی کی قیمت 59 روپے 3 پیسے فی کلو تھی۔ ایک سال میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 167 روپے مہنگا ہوا، آٹے کے تھیلے کی قیمت ایک سال قبل 788 روپے تھی اور اب آٹے کے تھیلے کی قیمت 955 روپے ہوگئی ہے۔
ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک ہفتے میں 15 اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، برائلر مرغی، دالیں، گائے کا گوشت اور چائے بھی مہنگی ہوئی۔ایک ہفتے کے دوران 9 اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا، گزشتہ ہفتے میں 27 اشیاء کی قیمتوں میں کمی ہوئی۔خیال رہے کہ ملک بھر میں آٹے کا بحران جاری ہے اور ملک کے مختلف شہروں میں آٹا مہنگا ہوگیا ہے۔دوسری جانب ملک میں چینی کابحران بھی سر اٹھانے لگا ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ہفتہ وار رپورٹ میں جس طرح واضح ہے اس سے عام لوگوں کی زندگی پرمرتب ہونے والے منفی اثرات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں،عوام کی قوت خرید دن بہ دن جواب دیتی جارہی ہے شاید ہی پہلے کسی دور حکومت میں اس قدر بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہو۔
حکومت کی جانب سے آئے روز یہ مؤقف سامنے آتا ہے کہ یہ وقتی بحران ہے جو ٹل جائے گا جبکہ صورتحال روز بروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ حکومت کے پاس ایک ہی جواز ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے قرض لئے ہیں جنہیں واپس کیا جارہا ہے جبکہ یہ حکومت خود بھی قرض لے رہی ہے، اس کے اثرات بھی عوام پر پڑ رہے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو پورا کیا جارہا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہواہے۔ پی ٹی آئی جب اپوزیشن میں تھی تو اس کے دعوے سب ہی عوام کے سامنے ہیں کہ کس طرح سے سابقہ حکومتوں پر تنقید کی جاتی تھی کہ کرپشن کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اگر حکمران کرپشن نہ کریں تو ملک تمام بحرانوں سے نکل جائے گا اور یہ کام پی ٹی آئی حکومت کرکے دکھائی گی۔ لیکن اب اسی پی ٹی آئی حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ کس طرح سے حکومتی اراکین مفت مشورے عوام کو دیتے ہیں کہ اگر آٹا مہنگا ہوا ہے تو اس میں بڑی وجہ موسم سرما ہے جس میں لوگ روٹی زیادہ کھاتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزراء اپنی کارکردگی اورمستقبل کے حوالے سے کیا کہہ رہے ہیں،ان مفت کے مشوروں سے ناقص حکو متی کارکردگی کو چھپایا نہیں جاسکتا۔
وزیراعظم عمران خان متعدد بار یہ بات دہراچکے ہیں کہ بہترین کپتان ایک ٹیم چُن لیتا ہے جو کہ نتیجہ دیتا ہے بہرحال چند ہی ماہ کے دوران کابینہ میں ردوبدل کیا گیا مگر کوئی بہتری نہیں آئی۔ وزیراعظم کی موجودہ کابینہ میں بھی سابقہ ح کومتوں سے وابستہ وزراء شامل ہیں پھر سابقہ پالیسیوں پر تنقید کیسی جبکہ موجودہ کابینہ میں بھی وہی چہرے نظر آتے ہیں۔ ملک میں عوام بیروزگارہوتے جارہے ہیں بحرانات اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو ملازمتوں سے فارغ کیاجارہا ہے جس کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ دیگر عالمی رپورٹس میں بھی واضح ہے کہ آنیوالے دن مزید معاشی حوالے سے سنگین ہونگے۔بہرحال یہ موجودہ حکومت اور خاص کر وزیراعظم عمران خان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ گڈ گورننس کیلئے اقدامات اٹھائے اور عوام کو فوری طور پر ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے اس سے پہلے کہ حالات بے قابو ہوجائیں۔