قومی ثقافت کی تشکیل میں ادیب و شاعر سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں، قومی احساس کو ابھار نے اور قومی شعور کو بیدار کرنے کی غرض سے یہ تمام لوگ گیتوں، قصوں، کہانیوں اور دیومالاہی تصورات کو تحریر میں لاتے ہیں،اس کے ساتھ ہی ان کی تخلیقات زبان و ادب کو ذر خیز کرتے ہیں۔ زبان کسی معاشرہ کی ذہنی ترقی کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس لیے جب تک زبان میں علمی و ادبی و فلسفیانہ موضوعات نہیں آئیں گے اس وقت تک معاشرہ کا ذہنی شعور محدود رہیگا اور جب مقامی زبان میں ادب پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی زبان کے معیار کے لیے قوانین و قواعد مرتب کیے جاتے ہیں اور لسانیات کے شعبہ میں ترقی ہوتی ہے۔
نئی لغات اور قواعد کی کتابیں لکھی جاتی ہیں محاوروں کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ یہ تحریک بھی چلتی ہے کہ زبان کو کس طرح سے غیر ملکی عناصر سے پاک کیا جائے اور اس میں خالص قومی زبان کے الفاظ و محاورے جو ماضی میں استعمال ہوتے تھے اور پھر متروک ہوگئے تھے انہیں دوبارہ سے استعمال کیا جائے۔اور قومی زبان کو ذرخیز بنانے کے لیے دوسرے زبانوں کی علمی و ادبی کتابوں کے ترجمے کیے جاتے ہیں تاکہ زبان میں اتنی وسعت پیدا ہو کہ اس میں مشکل مضامین کی تشریح کی جا سکے۔ یہ قومی زبان اور اس میں لکھا ہوا ادب مختلف جماعتوں،گروہوں اور علاقے کے لوگوں کو آپس میں متحد کرتا ہے۔
جدید قوم پرستی کی ترقی اور نشونما کیلئے زبان سمیت تہذیب و ثقافت اور ادب نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے جب لوگوں کی تہذیب و ثقافت مشترک ہوتی ہے تو ان کے درمیان ابلاغی رابطہ نہایت آسانی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خیالات اور احساسات سے بخوبی آگاہ ہوجاتے ہیں۔اسی طرح ان کے درمیان ایک مشترکہ شعور و ادراک پیدا ہوجاتا ہے جو انکے نظریہ قوم پرستی کی بنیاد ہے مزید برآں، مشترکہ تہذیب و ثقافت کے باعث ایک مشترکہ زبان و ادب جنم لیتا ہے زبان و ادب جدید قوم پرستی کے ستون ہیں۔تہذیب و ثقافت (زبان وادب) نے بلوچ قوم پرستی کے فروغ میں نہایت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔
بلوچ بحیثیت قوم ایک شاندار تاریخ اور ماضی کا مالک ہے جو اس وقت دنیا بھر میں مختلف ممالک میں آباد ہے اور اپنے قومی تشخص و زبان اور تہذیب و ثقافت کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت اور مقام رکھتا ہے مگر تاریخ کے جبر کے باعث بلوچ اس وقت ایران افغانستان اور پاکستان اور دیگر علاقوں میں منقسم ہیں بلوچوں کی بنیادی زبان بلوچی کے علاوہ بھی دیگر زبانیں وجود رکھتی ہیں جو بلوچستان کے نسلی علاقائی سرحدوں میں بولی جاتی ہیں جیسے براہوئی۔ سرائیکی،دہواری اور ایرانی بلوچی بولتے ہیں۔ بلوچی زبان کی ایک مختلف تاریخی پس منظر ہے اور اس کی کسی بھی دوسرے زبان سے کوئی مشابہت یا تعلق نہیں جس کی خصوصیات کچھ منفرد اور ممتاز ہیں۔
سیاسی اعتبار سے زبان کی جدوجہد کے حوالے سے اگر دیکھا جائے اپریل 1946 میں ریاست قلات کے نیشنل پارٹی کی جنرل سیکریٹری میر گل خان نے ایک مضمون شائع کیا جس میں بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان کی حیثیت سے بلوچی زبان کی حمایت کی گئی اور اسی طرح محمد حسین عنقا نے بلوچی زبان کی عنوان سے اداریہ تحریر کیا اور خان قلات سے مطالبہ کیا کہ بلوچی زبان کو اسکولوں میں تدریسی زبان کی حیثیت سے متعارف کرایا جائے۔ اور بعد میں اسی لیے جنوری 1947 میں محمد حسین عنقا نے”بلوچ مجلس“ کی بنیادرکھی جس کا مقصد بلوچی زبان و ادب کا فروغ تھا۔
اور ان اکابرین کے علاوہ زبان کی ترجیحات کے حوالے سے نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے بلوچستان میں دورِ اقتدار میں ایک کوشش کی گئی اور اس کے بعد حکمرانی کی ایک طویل عرصے گزرنے کے بعد نیشنل پارٹی کی حکومت میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ جب بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے زبان و ثقافت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے حکومتی ترجیحات میں شامل کیا اور بلوچستان کے تمام زبانوں کے شعراء، ادباء اور گلوکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جو ایک طرح سے خوش آئند عمل تھا اور دوسری طرف تمام مادری زبانوں کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے لئے قرارداد منظور کی گئی۔
مگر مادری زبانوں میں تدریس کا عمل سست روی کا شکار ہے اب اس حوالے سے موجودہ حکومت اور اپوزیشن کو کام کرنا چاہیے،بلوچستان کے تمام مادری زبانوں کو درسی وتدریسی نصاب میں شامل کرے تاکہ تمام زبانوں کو عملی طور پر فروغ مل سکے۔دوسری جانب بلوچ نوجوانوں کو چائیے کہ وہ اپنی زبان، تہذیب و ثقافت اور ادب کی نگہبانی کا فریضہ سرانجام دیں اور اپنے زبان اور قومی تشخص کی حفاظت کریں نہ کہ زبان،نسل، قبیلہ پرستی اور علاقہ پرستی کی بنیاد پر خود کو تقسیم کریں۔ بلوچ بحیثیت قوم خود کو مضبوط اور منظم کریں مستقبل کے تمام تر چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم اور قلم کو اپنا ہتھیار بنائیں۔