|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2020

کوئٹہ: صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے کہا ہے کہ ہماری جماعت کے کچھ کرتا دھرتاؤں نے سردار اختر جان مینگل سے ایسا معاہدہ کیا جس کے تحت 5 سال میں بھی ان کے 6 نکات ختم نہیں ہونگے بی این پی کے مسائل کوجس طرح پی ٹی آئی نے اہمیت دی اس کی مثال نہیں ملتی مگر جب بھی وقت آیا تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے بجائے اپوزیشن کے اتحادی ہیں۔

اسپیکر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے اختلافات بلوچستان عوامی پارٹی کا ذاتی مسئلہ ہے کہ ہماری خواہش ہے کہ اختلافات کا خاتمہ ہو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے اپوزیشن کا احتجاج نئی روایت تھی تاہم اب تک وزیراعلیٰ بلوچستان سے اپوزیشن احتجاج سے متعلق بات نہیں ہوئی ہم سے مشاورت کی گئی تو صوبے اورجمہور کے مفاد میں ضرور مثبت مشورہ دیں گے بلوچستان میں تعلیم کے میدان میں سوائے پسماندگی کے اور کچھ نہیں ہم صوبے میں تعلیمی اصلاحات لائیں گے۔

جس کے لئے وسائل کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے کچلاک اور پشین کے سکولوں میں قائم نہم دہم کے امتحانی مراکز کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا سردار یار محمد رند نے کچلاک اور پشین بوائز سکول میں غفلت برتنے پر امتحانی مرکز میں تعینات نگر ان عملے کو معطل کرتے ہوئے ان کے خلاف فوری کارروائی جبکہ دونوں سکولوں کے پرنسپلز کو سہولیات فراہم نہ کرنے پر ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کرنے کا حکم دیتے ہوئے 15 روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے تعلیمی میدان میں پسماندگی کے سوا ئے اور کچھ نہیں ہے۔

سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے دور اقتدار میں تعلیمی بجٹ میں اضافہ کیا تاہم بعدازاں اس بجٹ کو دوبارہ کم کر دیا گیا جس سے تعلیمی بہتری کے مقاصد کو حاصل کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے تاہم اب پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان عوامی پارٹی مشترکہ طورپر صوبہ میں تعلیم کی بہتری کو اپنی ترجیحات میں شامل کئے ہوئے ہے ہماری کوشش ہے کہ ہم جلد تعلیمی اصلاحات لائیں تاہم اس کے لئے ہمیں وسائل کی ضرورت ہے۔

ہم ڈونرز ایجنسی سے بھی رابطہ کررہے ہیں تاکہ وہ بلوچستان کے تعلیمی میدان میں سرمایہ کاری کریں انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ہمیشہ سے سیاست روایات کے محور میں رہی ہے تاہم یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اپوزیشن نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جو تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تاہم اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان اور ہمارے درمیان بات چیت نہیں ہوئی اگر ہم سے مشاورت کی گئی تو ہم صوبہ کی بہتری اور جمہور کے استحکام کے لئے بہتر مشورہ دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان ہونے والا معاہدہ ایسا نہیں تھا کہ جس طرح دو سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد میں ہوتا ہے کچھ سیاستدان اور ہماری پارٹی کے کچھ لوگ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہی کرتا دھرتا ہیں ان کی وجہ سے ہمارے درمیان ایک ایسا معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت ایک سال تو کیا پانچ سال میں بھی سردار اختر جان مینگل کے چھ نکات ختم نہیں ہونگے اگر دیکھا جائے تو ایسی کون سی چیز ہے۔

جو اس معاہدے کے تحت سردار اخترجان مینگل کے ساتھ نہیں ہوئی مجھے امید ہے کہ ہم جس طرح ان کے مسائل کو دیکھ رہے ہیں انہیں بھی چاہئے کہ وہ ایک سیاسی جماعت اور اتحادی کی طرح ہمارا ساتھ دیں کیونکہ جب بھی وقت آیا ہے تو ایسا محسوس کیا گیا ہے کہ وہ ہمارے کم اور اپوزیشن کے اتحادی زیادہ ہیں لاپتہ افراد کی بازیابی میں جس طرح پاکستان تحریک انصاف میں اپنا کردار ادا کیا اگر کوئی دوسری جماعت یا سردار اختر جان مینگل کا کوئی دوسرا اتحادی ہوتا تو وہ یہ کردار ادا نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان عوامی پارٹی کے خیرخواہ ہیں اسپیکر اور وزیراعلیٰ بلوچستان کے اختلافات ان کی جماعت کا ذاتی مسئلہ ہے ہمارا اتحاد کسی شخصیت سے نہیں بلکہ جماعت سے ہے اختلافات کے خاتمہ کا اختیار وزیراعلیٰ بلوچستان کو ہے کیونکہ وہ ان کی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں ہمارای خواہش ہے کہ یہ اختلافات جلد اختتام پذیر ہوں۔