|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2020

طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے طالبان قیدیوں کی مشروط رہائی کو مسترد کردیا۔افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے افغان صدر کی جانب سے طالبان قیدیوں کی مشروط رہائی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی امریکا کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے برخلاف ہے۔ معاہدے میں باضابطہ طور پر یہ بات شامل تھی کہ پہلے 5 ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے اس کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ کا آغاز ہوگا۔طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم کسی صورت بھی قیدیوں کی مشروط رہائی پر آمادہ نہیں اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے تو یہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان معاہدے کے خلاف ہوگا۔افغان طالبان کا یہ رد عمل صدر اشرف غنی کی جانب سے 1500 افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کرنے کے بعد سامنے آیا ہے جبکہ افغان صدر کے ترجمان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ طالبان کے 5ہزار قیدیوں کی رہائی کے پہلے مرحلے میں 1500 قیدیوں کو رہا کیا جارہا ہے۔

اس کے علاوہ باقی 3500 افغان قیدی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کا آغاز ہونے پر رہا کیے جائیں گے جبکہ ان باقی قیدیوں کی رہائی بھی ملک میں تشدد میں واضح کمی سے مشروط ہے۔افغان صدر کے ترجمان کاکہناہے کہ ابتدائی طور پر قیدیوں کی رہائی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے لیے خیر سگالی کی علامت ہے۔واضح رہے کہ امریکا طالبان امن معاہدے کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ کے لیے افغان حکومت کو 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا ہے اور اس کے لیے افغان صدر نے پہلے مرحلے میں 1500 قیدیوں کی رہائی کا اعلان کردیا ہے جبکہ اس سے قبل انہوں نے قیدیوں کی رہائی سے انکار کیا تھا۔معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جبکہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ وہ افغان سرزمین کوالقاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔

معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔

معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔بہرحال افغانستان میں امن معاہدے کے بعد صورتحال میں بدستور تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے ایک بار پھر عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے مدِمقابل صدر کا حلف اٹھالیا ہے جوکہ سیاسی استحکام کیلئے نیک شگون نہیں،دونوں شخصیات امریکہ نواز ہیں مگر اس وقت امریکہ کی مکمل حمایت اشرف غنی کو حاصل ہے البتہ اس سے قبل بھی عبداللہ عبداللہ نے پچھلی بار صدارتی انتخابات کو چیلنج کیا تھا مگر بعدازاں اسے چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ دیا گیا تھا مگر ماضی کی نسبت اب صورتحال کچھ اور ہے ملابرادران براہ راست امریکہ سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اپنے مطالبات کو بھی امریکہ کی توسط سے پورا کریں گے جبکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حیثیت فی الحال اس پورے عمل میں صفر دکھائی دیتی ہے۔

طالبان کے بین الافغان مذاکرات اور مستقبل میں حکومتی شرکت داری ضرور چیلنجز پیدا کرسکتی ہے کیونکہ افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اس جانب اشارہ دے رہے ہیں کہ دیگر گروپس اپنے مطالبات اور شرائط کی بنیاد پر نہ صرف بات کرنا چاہتے ہیں بلکہ افغانستان میں آنے والے وقت میں حکومتی شراکت داری کو بھی یقینی بنانے کا تصور رکھتے ہیں۔اس تمام صورتحال کے بعد جو منظر نامہ دکھائی دے رہا ہے یقینا اس سے فی الوقت یہ نہیں لگتا کہ افغانستان میں ملابرادران باآسانی اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں جبکہ امریکہ کیلئے امن کو قائم کرنا مشکل دکھائی دے رہا ہے مگر یہ کسی کے مفاد میں نہیں ہوگاجو اس خطے کو ہی نہیں بلکہ دنیا کے امن کیلئے ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا کرے گا۔