بلوچستان حکومت کی جانب سے مسلسل کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات اور انتظامات کا جائزہ لیاجارہا ہے اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان مسلسل خود اس معاملے کی نگرانی کررہے ہیں۔ دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے ہر ممکنہ اقدامات کو یقینی بنایاجارہا ہے۔یقینا یہ ایک مشکل وقت ہے اور سب نے مل کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں کرونا وائرس کی روک تھام کے اقدامات اور احتیاطی تدابیر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
صوبائی وزراء اور اپوزیشن کے اراکین اسمبلی بھی اجلاس میں شریک ہوئے، سیکریٹری صحت اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے شرکاء اجلاس کو زائرین کے امور، قرنطینہ اور آئیسولیشن کی سہولیات پر بریفنگ دی اوربتایا گیاکہ محکمہ صحت کے پاس 200 ٹیسٹنگ کٹس دستیاب ہیں، اب تک 34 ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔ شیخ زید اور فاطمہ جناح اسپتال میں آئیسولیشن وارڈ قائم کردیا گیا ہے، وینٹیلیٹر اور دیگر سہولیات دستیاب ہیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا کہنا تھا کہ دوسرے صوبوں کے زائرین کو طے کی گئی حکمت عملی کے تحت ان کے صوبوں میں بھیجنا شروع کر دیاگیا ہے۔
بلوچستان نے زائرین کے حوالے ذمہ داری اٹھائی اوراسے نبھا رہی ہے اورحکومت بلوچستان نے کورونا کے مسئلے کو پہلے دن سے سنجیدگی سے لیا ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ کم وسائل کے باوجود اس چیلنج سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کورونا قومی مسئلہ ہے اور اس سے نمٹنا مشترکہ سماجی ذمہ داری ہے، ہمیں سیاست سے بالاتر ہو کر کورونا وائرس کے تدارک کیلئے مشترکہ طور پر اپنا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔دوسری جانب محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک اعلامیہ کے مطابق نوول کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشہ کے پیش نظر صوبہ بھر میں دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے۔
حکومت بلو چستان نے اپنے آئینی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے 10یا 10سے زائد افراد کے کسی بھی قسم کے اجتماع پر پابندی عائد کردی ہے،اس پابندی کا اطلاق عوامی مقامات، دھرنے،جلوس،ریلیوں، مارکیٹوں اور ریسٹورنٹس میں اجتماعات پر ہو گا۔علاوہ ازیں عوامی سطح پر شادی کی تقریبات،ولیمہ پارٹیوں،کھیلوں،تعلیمی اجتماعات،کانفرسوں،سیمینار اور سنیما پر بھی اسکا اطلاق ہو گا۔دوسری جانب سرحدوں کو بھی مکمل سیل کردیا گیا ہے جبکہ تفتان سرحد سے ایران جانے والے زائرین پہنچ رہے ہیں جنہیں پاکستان ہاؤس میں رکھا جارہا ہے۔
اور ان کی اسکریننگ کا عمل بھی جاری ہے۔مگر ساتھ ہی کوئٹہ ہزار گنجی کی صورتحال پروزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان فوری توجہ دیں کیونکہ گزشتہ روز بھی ہزار گنجی میں قرنطینہ میں موجود افراد نے احتجاج کیا اور دھرنا بھی دیا۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی ٹیسٹنگ کا عمل شروع نہیں کیا گیا ہے، لہٰذا جلد ازجلد ان کا طبی معائنہ کرکے انہیں اپنے شہروں کو روانہ کیاجائے۔ اسی طرح محکمہ صحت نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے جو ڈاکٹر اس وقت ہزار گنجی قرنطینہ سینٹر میں ڈیوٹی دینے سے انکاری ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے اور اس حوالے سے سیکریٹری صحت نے چیف سیکریٹری کو مراسلہ بھیج دیا ہے۔
جس میں 13 ڈاکٹروں کو خصوصی طور پر قرنطینہ سینٹر میں تعینات کیا گیا تھا جنہوں نے ڈیوٹی کیلئے جوائننگ نہیں دی ہے۔ سیکریٹری صحت نے غیر حاضر ڈاکٹروں کے خلاف بلوچستان ایمپلائز ایفینشنسی اینڈڈسپلن ایکٹ 2011 کے تحت شوکاز نوٹس جاری کرنے کی درخواست کی ہے۔ بہرحال ڈاکٹروں کو ڈیوٹی دینی چاہئے کیونکہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے تاکہ مل کر اس وباء کے خلاف لڑا جاسکے۔ امید ہے کہ ڈاکٹر مسیحا کا کردار ادا کرینگے تاکہ اس وباء کو شکست دی جاسکے۔