پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مزید نئے کیسز سامنے آنے کے بعد متاثرین کی مجموعی تعداد 633 ہوگئی ہے جبکہ اب تک 3 افراد ہلاک اور پانچ صحت یاب ہوچکے ہیں۔جمعہ کو رات 12 بجے تک پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 495 تھی جو اب مزید 137 کیسز سامنے آنے کے بعد 632 تک پہنچ گئی ہے۔ ہفتے کو سندھ میں 105، پنجاب میں 8، بلوچستان میں 10، گلگت بلتستان میں 9، خیبر پختونخوا میں 4 اور اسلام آباد میں ایک نیا کیس سامنے آیا ہے۔ ہفتے کو اسلام آباد میں زیر علاج ایک مریض صحتیاب بھی ہوا جس کے بعد اس وائرس سے صحتیاب ہونے والوں کی مجموعی تعداد 5 ہوگئی ہے۔ اس سے قبل کراچی میں 2، حیدرآباد میں ایک اور اسلام آباد میں ایک مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔پاکستان میں کورونا سے 3 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جن میں سے 2 خیبر پختونخوا اور ایک کراچی میں ہوئی ہے۔ کورونا وائرس جس تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اس کی ایک بڑی وجہ عوام کاایک دوسرے کے ساتھ معمول کا میل جول ہے۔
اس حوالے سے عوام پر زور دیاجارہا ہے کہ وہ اپنے رابطے اور بیٹھکیں ختم کرکے گھروں میں رہیں تاکہ اس وائرس کا پھیلاؤکم ہوسکے جس کے پیش نظر سندھ حکومت نے پہلے فیصلہ کیا اورتمام بڑے شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس، چائے خانوں، تفریح گاہوں پر پابندی لگادی جس کی بنیادی وجہ جگہ جگہ ہجوم بننے سے روکناہے۔ جب حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ کیا گیاتو یہ ابتدائی اقدام تھا اور اس کے بعدفیصلہ کرنا تھا کہ آنے والے دنوں میں مزید کن اقدامات کی طرف جانا ہے۔مگر عوام مسلسل لاپرواہی برتی نظر آرہی ہے،لوگ تعطیلات کو معمول کی چھٹیاں سمجھ کر نہ صرف تفریح گاہوں کا رخ کرنے لگے ہیں بلکہ دیگر تقریبات بھی منعقد کرنے لگے ہیں جس کا نقصان اب سامنے آنا شروع ہوگیا ہے کہ کس طرح سے لوگوں نے احتیاطی تدابیرکو نظراندازکرتے ہوئے وائرس کو پھیلایا، مگر اب بھی وقت ہے خدارا اس وباء کو سنجیدگی سے لیاجائے،کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے جو بڑے نقصانات اور چیلنجز سامنے آرہے ہیں وہ کورونا وائرس کی وجہ سے ہی ہیں اسی لئے تودنیا کے تمام ممالک وائرس سے نمٹنے کیلئے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہے ہیں تاکہ اپنے عوام کو وباء سے بچا سکیں۔ بدقسمتی سے ایران اور اٹلی نے پہلے اس وباء کو سنجیدگی سے نہیں لیا بلکہ مجرمانہ غفلت برتی گئی اور آج سب سے زیادہ اموات انہی دوممالک میں ہورہی ہیں اور اب وہاں مکمل لاک ڈاؤن گویا کرفیو لگادیا گیا ہے۔
چین میں اگر اب کیسز کی شرح میں کمی آئی ہے تو اس کی وجہ لاک ڈاؤن ہی ہے۔مگر یہ بات بھی ہے کہ ہمارے ملک میں بیشتر لوگوں کا روزگار روزانہ کی اجرت پر ہے جو کہ ان کیلئے بڑے مسائل کا سبب بن سکتا ہے، اس لئے فی الحال لاک ڈاؤن ہی کیاجارہا ہے مگر اس کے ذمہ دارعوام ہیں جوکہ مسلسل حکومتی فیصلوں کو سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں جوکہ ان کے اپنے لئے بڑے نقصان کا باعث بن رہا ہے، جتنی غفلت برتی جائے گی اتنا ہی وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بڑے گا اور مجبوراََ حکومت کرفیو کی طرف جائے گی، لہٰذا عوام کو ہی احتیاطی تدابیر اپنانے ہونگے تاکہ اس انسانی بحران کا مقابلہ کیاجاسکے جس نے پوری دنیا میں ایک خوف اور قیامت طاری کی ہے۔ لہذا اب عوام کو ہی کردار ادا کرناہوگا کہ وہ غیر ضروری سفر سمیت میل ملاپ سے گریز کریں،خاص کر ہمارے یہاں سوشل اجتماعات چائے خانوں اور عام بیٹھک کے طور پر لگتی ہیں اور مہمانوں کی آمد ورفت جاری رہتی ہے اس سے گریز کریں تاکہ ملک میں اس وباء کو روکا جاسکے۔