|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2014

اسلام آباد کے ڈی چوک میں جمعے کو بھی سیاسی گہما گہمی جاری ہے، جہاں ایک طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے نمازِ جمعہ کے بعد اپنی خود سے وضع کردہ آزادی کا جشن منانے اور قوم کو موجودہ کرپٹ حکمرانوں سے نجات دلانے کا اعلان کر رکھا ہے تو دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ بھی اپنے حامیوں کو مسلسل حکومت کے خلاف ڈٹا رہنے پر اُکسا رہے ہیں۔ جبکہ پارلیمنٹ نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ تمام اراکین کی جانب سے وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت جاری رکھے جائے گی اور ملک میں کسی بھی قسم کی غیر آئینی اور غیر جمہوری تبدیلی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ کسی صورت استعفی نہیں دیں گے اور دس پندرہ ہزار لوگوں کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر جمع کر دینے سے کوئی بھی انھیں یا حکومت کو بلیک میل نہیں کر سکتا۔ حکومت نے ڈی چوک میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی دھرنوں کے شرکاء کے خلاف کسی بھی قسم کی طاقت کا استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ موجودہ سیاسی صورتحال کیا رخ اختیار کرے گی۔ یہاں آج کے دن سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں ، بیانات اور واقعات کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔

مذاکرات کے لیے تیار ہیں، عمران خان


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں، لیکن انہیں ایسا تحقیقاتی کمیشن قبول نہیں جس کا سربراہ حکومتی نمائندہ ہو۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا کہ ملک میں سپریم کورٹ کی سربراہی میں غیر سیاسی سیٹ اپ بنایا جائے جو آزاد اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے۔ اس سوال کے جواب میں کہ وزیراعظم نے استعفٰی دینے سے انکار کردیا ہے، اب ان کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم استعفٰی اس لیے نہیں دیں گے کیوں کہ ان کا سارا بزنس حکومت میں آکر ہی پروان چڑھنا شروع ہوتا ہے۔ دھرنے کے خاتمے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا، ابھی تو ہم کھڑے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم ایک پُرامن پارٹی ہیں اور ہمارے لیے سارے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی پر پابندی کی درخواست دائر


سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے۔ درخواست گزار ایڈووکیٹ ایم ایچ مجاہد نے اپنی پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ پی اے ٹی، اور پی ٹی آئی کے دھرنوں سے اسلام آباد میں لوگوں کی نقل و حرکت متاثر ہو رہی ہے۔ درخواست گزار نے کورٹ سے درخواست کی ہے کہ دونوں جماعتوں پر آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت پابندی عائد کی جائے۔

عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، عوامی تحریک


سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا ہے۔ ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق پاکستان عوامی تحریک نے اپنے جواب میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ عدالت سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ سترہ جون کو ماڈل ٹاؤن میں کارکنوں کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا جارہا ہے اور احتجاج کے حق کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔

احتجاج اور دھرنے آئینی حق ہیں، تحریک انصاف


پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ احتجاج اور دھرنے کا حق آئین نے دیا ہے۔ سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت کے دوران تحریری جواب میں تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ عمران خان قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے نہ تو کبھی ماورائے آئین اقدام کی حمایت کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ تحریک انصاف نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ عمران خان نے پارلیمنٹ پرحملے کا کبھی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ پی ٹی آئی نےریڈزون کے اطراف لگے کنٹینرز کو آزادانہ نقل حرکت میں رکاوٹ قرار دیا ہے اور سپریم کورٹ سے متعلقہ حکام کو کنٹینرز اٹھانے کا حکم دینے کی درخواست کی ہے۔

ملتان میں دفعہ 144 نافذ


ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے باعث ملتان میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی ہے ، جس کے تحت ہر قسم کے جلسے جلوسوں پر پابندی عائد ہوگی۔ ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے باعث اس پابندی کافیصلہ کیاگیا۔ یاد رہے کہ دوروز قبل ملتان شہر میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ضلعی صدر بلال بٹ کی قیادت میں مسلم لیگی کارکنوں نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی جانب سے غیر جمہوری بیان پر مشتعل ہو کر ملتان میں ان کے گر پر دھاوا بول دیا تھا۔ کارکنان کی جانب سے شاہ محمود قریشی کے گھر پر پتھراؤکے بعدحکومت کومختلف حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔

پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کر رہے، امریکا


امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کو رَد کردیا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہاف نے جمعے کو واشنگٹن میں ایک بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں شریک نہیں، لیکن ہم پاکستان میں موجودہ سیاسی صورتحال کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلے کے حل کے لیے پُرامن مذاکرات ہونے چاہیٔیں، تاہم غیر آئینی طریقے سے حکومت کے خاتمے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیٔے۔ اس سوال کہ جواب میں کہ کیا موجودہ صورتحال کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کے رابطے ہوئے ہیں، میری ہاف نے کہا کہ امریکی سفیر رچرڈ اولسن پاکستان میں مختلف حکام سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں، ان کی ملاقاتوں میں یقیناً اس معاملے پر بھی بات ہوئی ہوگی۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز امریکا کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ پاکستان میں ماورائے آئین طریقوں سے حکومت کی تبدیلی کی کوششیں نہیں ہونی چاہیٔیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نواز شریف پاکستان کے منتخب وزیراعظم ہیں اور امریکا ان کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔ امریکا کے اس بیان کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک میں موجود پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے شرکاء میں غم و غصّے کی لہر دوڑ گئی تھی، اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے بیان دیا تھا کہ ’امریکا ہمیں خود اپنی قیادت منتخب کرنے دے اور ہماری داخلی سیاست میں جانبداری سے کام نہ لے‘۔

حکومت سخت رویے سے گریز کرے، الطاف حسین


متحدہ قومی موونٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین نے حکمرانوں کو مصالحانہ رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت بااختیار ہے، لہٰذا سخت رویے سے گریز کرے۔ دوسری جانب انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کو بھی مشورہ دیا کہ وہ معاملے کو ٹھنڈا کردیں۔ ڈان نیوز ٹی وی کے مطابق جمعرات کی رات اپنے ایک بیان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے مذاکرات کے تعطل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران بااختیار ہیں اور وہی مظاہرین کے مطالبات پر فوری توجہ دے کراس کا حل نکال سکتے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ میری حکومت سے پُرزور اپیل ہے کہ اگر حکومت کو ملک کے امن و استحکام اور جمہوریت کی بقا عزیز ہے تو وہ معاملات کو بغیر کسی تصادم کے حل کرنے کے لیے پہل کرے اور اگر دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو حکومت کو اس میں کسی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہیٔے۔ ایم کیو ایم کے قائد نے حکومت سے کہا کہ وہ اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کرے اور وقت ضائع کیے بغیر پہل کرتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرکے کسی نہ کسی طرح مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنائے۔ الطاف حسین نے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہوں اور تمام رہنماؤں سے بھی اپیل کی کہ وہ ملک کی نازک صورتحال کو سامنے رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی یہ نہیں بھولنا چاہیٔے کہ ایک طرف پاکستان کی مسلح افواج شمالی وزیرستان میں پاکستان کی تاریخ کی مشکل ترین جنگ سے نبردآزما ہیں اور دوسری جانب ہندوستان نے پاکستان کی اندرونی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپنی افواج پاکستان کی سرحدوں پر جمع کرنے کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر حملے بھی شروع کر دیے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج، رینجرز و دیگر سیکیورٹی کے اداروں کے جوان و افسران بھرپور مقابلہ کر کے ان حملوں کو ناکام بنا رہے ہیں۔