|

وقتِ اشاعت :   August 24 – 2014

پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا مرحلہ بھی گزشتہ روز کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا۔ گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات میں بھی وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر اتفاق نہ ہوسکا۔ ہفتے کو ہونے والے مذاکرات میں حکومت کی جانب سے گورنر پنجاب محمد سرور، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی حسین اقبال نے شرکت کی، جبکہ تحریک انصاف کی نمائندگی میں شاہ محمد قریشی، جاوید ہاشمی، ڈاکٹر عارف علوی اور جہانگیر ترین سمیت دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ تحریک انصاف وزیر اعظم سے ایک ماہ کے لیے عہدہ چھوڑنے کے نئے مطالبے کے ساتھ ساتھ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے پر قائم ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عہدہ نہیں چھوڑیں گے پہلے تحقیقات کی جائیں کہ دھاندلی ہوئی ہے اگر یہ ثابت ہو جائے تو وزیر اعظم سمیت پوری حکومت ختم کر دی جائے گی۔ دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور حکومت ابھی کسی ایک متفقہ نکتے پر نہیں پہنچ سکے ہیں، تاہم دونوں طرف سے مذاکرات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ سیاسی بحران کو حل کرنے کی کوششوں میں گزشتہ روز ایک اہم پیش رفت اس وقت دیکھنے میں آئی جب وزیراعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان رائے ونڈ میں ایک اہم ملاقات ہوئی جس میں موجودہ صورتحال اور وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے پر غور کیا گیا۔ یہاں آج کے دن سیاسی منظر نامے میں ہونے والی تبدیلیوں ، بیانات اور واقعات کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کیا جا رہا ہے۔

پی ٹی آئی کے استعفوں سے صورتحال مزید خراب ہوگی، سراج الحق

لاہور: امیر جماعتِ اسلامی سیراج الحق نے آج اتوار کے روز قومی اسپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی ہے کہ وہ تحریک انصاف کا استعفے منظور نہ کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر تحریکِ انصاف کے ارکین کے استعفے منظور کیے گئے تو صورتحال مزید شدت اختیار کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یہ استعفے منظور ہوئے تو 60 روز میں انتخابات کروانا لازمی ہوجائے گا۔ لاہور میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاض صادق سے ملاقات کے بعد میڈٰیا سے بات کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ دونوں فریقین کی جانب سے مذاکرات کی میز پر آنا خوش آئند بات ہے۔ انہوں نے حکومت اور تحریک انصاف دونوں سے اپیل کی کہ وہ سیاسی بحران کا جلد از پرامن حل نکالیں۔ اس موقع پر امیر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ سب سیاسی جماعتوں میں اتفاق ہے اور امید ہے کوئی درمیانی راستہ نکل جائے گا۔

عمران کامیابی کے لئے پر امید

  پاکستان تحریک انصاف کے اندر اور باہر بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود اس کے چیئرمین کو یقین ہے کہ ان کی پارٹی وزیر اعظم کے استعفی تک اپنی آزادی مارچ کو جاری رکھے گی۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع اور تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کے رہنماؤں کی وزیر اعظم کے استعفے کے اہم مطالبے پر کچھ لچک دکھانے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات میں درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کے لئے گزشتہ چند دنوں کے دوران گرما گرم بحث ہوئی۔

سراج الحق کا تیسری قوت کی مداخلت کا تنبیہ

جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ یہ حکومت اور سیاسی رہنماؤں اور خاص طور پر عمران خان اور طاہر القادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ ڈیڈ لاک کو ختم کریں، ورنہ کوئی بھی اس معاملے میں تیسری قوت کی مداخلت کو روک نہیں روک سکے گا اور نہ ہی عوام سیاست دانوں کو کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔

عمران خان لوگوں کو قانون کی خلاف ورزی پر اکسا رہے ہیں، اسحاق ڈار

وزیرِ خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ عمران خان لوگوں کو قانون کی خلاف ورزی پر اکسا رہے ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ نے ہنڈی کے حوالے سے بیان دیے کر ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔

اسلام آباد کے ریڈ زون میں موبائل سروس بحال

ڈان نیوز کے مطابق پی ٹی اے اور وزارتِ داخلہ کی ہدایت پر اسلام آباد کے ریڈ زون میں موبائل فون سروسز کو بحال کردیا ہے گیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ رات سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ریڈ زون میں موبائل فون سروسز کو معطل کردیا گیا تھا۔ ترجمان پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ وزارت داخلہ کی ہدایت پر ریڈ زون میں تاحکم ثانی موبائل فون سروسز بند کی گئی ہیں۔ دوسری جانب ذرایع کا کہنا ہے کہ آج رات دوبارہ موبائل سروسز بند ہونے کا امکان ہے۔
عمران خان کا نواز شریف سے ایک ماہ کیلئے استعفی کا مطالبہ
پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف ایک ماہ کے لیے مستعفی ہو جائیں اور اس دوران تحقیقات میں فیصلہ ہو جائے کہ حکومت جائز ہے یا اسے ختم ہونا چاہیے۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے دھرنے سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف ایک ماہ کے لیے بھی کرسی چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ عدالتی کمیشن کے ذریعے ہونے والی تحقیقات میں اگر ثابت ہو جائے کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو ہم اس حکومت کو تسلیم کر لیں گے۔