ماری پور ٹکری ولیج کراچی کا ایک پسماندہ ترین اور نظر انداز ترین علاقہ ہے۔یہاں کے عوام کے اکثریت کا تعلق ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔جبکہ دو صدیوں سے آباد علاقے کے باشندے صحت، تعلیم اور ضروریات زندگی کی سہولتوں سے یکسر محروم ہے۔بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اپنی جگہ لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ ٹکری ولیج کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں اگر انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے کسی بھی شعبے میں سہولتیں فراہم کی جائیں تو یہ نوجوان قوم اور ملک و ملت کے لئے ایک اہم اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں۔جس طرح ٹکری کے نوجوانوں نے اپنی مدد آپکے تحت اپنے عوام کو تعلیم دینے کی غرض سے ٹکری ایجوکیشن سینٹر کی بنیاد رکھی جو ٹکری کے عوام کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں ہے اسی طرح اسپورٹس کے میدان میں نوجوانوں نے اپنی مدد آپکے تحت علاقے کے بچوں کی ٹریننگ کا انتظام کیا۔
ان باتوں کو تحریر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ صلاحیت ہر انسان میں موجود ہوتی ہے بس ان صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانے کے لئے سرپرستی اور سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ٹکری کے نوجوانوں کی مثال اس ہیرے جیسی ہے بس انہیں تراشنے کی ضرورت ہے اگر انہیں تراشا گیا تو مستقبل میں لوگوں کے لئے ایک مثال، ایک امید اور مستقبل کے درخشاں ستارے ثابت ہوسکتے ہیں۔
آج ایک ایسے ہی مستقبل کے درخشاں ستارے کا ذکر کرنا چاہوں گا جس نے ٹکری کے مایوس نوجوانوں میں ایک جذبے اورشوق کو جنم دیا، جس نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پہ دو ہزار چودہ میں اسٹریٹ چلڈرن فٹبال ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچایا۔یہ نوجوان رازق مشتاق بلوچ ہے جو یکم جنوری 1999 کو ماری پور ٹکری ولیج میں مشتاق بلوچ کے ہاں پیدا ہوئے۔ فٹبال کا شوق ورثے میں پایا کیونکہ انکے ماموں قاسم بلوچ کے پی ٹی انٹرنیشنل فٹبالر اور اپنے دور کے بہترین کھلاڑی رہ چکے ہے اور موجودہ دور میں ان کا شمار کراچی کے بہترین کوچز میں ہوتا ہے۔ جبکہ رازق بلوچ کے چھوٹے ماموں شاہنواز بلوچ بھی اچھے فٹبالر رہ چکے ہے۔اسکے علاوہ فیملی میں چچازاد بھائی بھی فٹبال کے پلئیر اور شیدائی رہ چکے ہیں۔
رازق بلوچ نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں فٹبال کو اوڑھنا بچھونا سمجھا جاتا ہے اور جنون کی حد تک فٹبال سے محبت کی جاتی ہے۔فٹبال کے اس ماحول نے رازق بلوچ کو خاصا متاثر کیا اور اسی جنون کو حقیقت کا روپ دھارنے اور مستقبل میں پاکستان کی نمائندگی کا خواب لئے رازق بلوچ نے آٹھ سال کی عمر میں فٹبال کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔رازق بلوچ نے کم عمری میں اپنی خدادانہ صلاحیتوں کے ذریعے فٹبال میں ایک نام پیدا کیا اور اپنی صلاحیتوں کو مذید نکھارنے کے لئے محنت شروع کی، انکی فٹبال سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ میں نے جب بھی انہیں دیکھا فٹبال کے گیند کے ساتھ ہی دیکھا اور ٹریننگ کرتے ہی دیکھا۔
دو ہزار چودہ انکی زندگی کا یادگار ترین سال تھا جب برازیل میں اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ کا میلہ سجا تو اس میں پاکستان کی نمائندگی تھی اور اسٹریٹ ورلڈ کپ میں جن کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا تھا ان میں رازق بلوچ سرفہرست تھے۔ یہاں میں انکے نوجوان کوچ راشد بلوچ کا ذکر کرنا ضروری سمجھو گا جنہوں نے ایک ایسی متوازن ٹیم منتخب کی جنہوں نے ان کھلاڑیوں کو منتخب کیا جن کی کارکردگی کی وجہ سے ٹیم نے سیمی فائنل میں نہ صرف کوالیفائی کیا بلکہ اپنے بہترین کھیل کی بدولت شائقین فٹبال کو حیرت زدہ کردیا۔رازق بلوچ دو ہزار چودہ میں برازیل جبکہ دو ہزار پندرہ سولہ میں یورپ کے دورے میں ٹیم کے ہمراہ تھا۔
دو ہزار سترہ میں انہیں پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا جب کہ دو ہزار اٹھارہ میں انہیں سوئی سدرن گیس کمپنی نے اپنے ٹیم میں کھیلنے کی آفر کی اور رازق بلوچ آج ایس ایس جی ایس کے بہترین کھلاڑیوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔دنیا کے کسی بھی کھلاڑی کے لئے قومی ٹیم کی نمائندگی کرنا ہمیشہ ایک خواب ہوتا ہے کچھ ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو یہ خواب لئے فٹبال کے میدان کا رخ کرتے ہیں لیکن کامیابی ان کا مقدر نہیں ہوتی اور وہ مایوس ہو کر فٹبال کو خیر باد کہہ دیتے ہیں لیکن فخر ٹکری ولیج رازق بلوچ کا شمار ان کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جو کو انکی محنت صلاحیت اور قابلیت کا صلہ کم عمری میں ہی مل جاتا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں پی ایف ایف کی جانب سے کن کھلاڑیوں کو ٹریننگ کیمپ مدعو کیا جاتا ہے۔
ان میں رازق بلوچ کا نام بھی شامل ہوتا ہے جبکہ دوسری مرتبہ دو ہزار انیس میں بھی انہیں پاکستان فٹبال ٹیم کی نمائندگی کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔اکیس سالہ رازق بلوچ پر امید ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی کارکردگی میں مذید نکھار پیدا کرکے اپنے صلاحیتوں کو فٹبال کی ترقی اور فروغ کے لئے استعمال کرینگے۔ رازق بلوچ نے اپنی محنت، قابلیت اور جدوجہد سے ثابت کیا کہ پسماندہ علاقوں کے لوگوں میں خدادانہ صلاحیتوں کا وجود ہے بس انہیں سہولتیں اور موقعہ درکار ہے۔
رازق بلوچ کا کہنا ہے کہ لیاری اور ماری پور کے نوجوانوں میں نہ صرف فٹبال کا جذبہ وجود رکھتا ہے بلکہ یہ نوجوان صلاحیت سے بھی مالا مال ہے اگر انہیں سہولتیں فراہم کی گئی تو یہ نوجوان فٹبال میں ایک بڑا نام پیدا کرسکتے ہیں۔رازق بلوچ ٹکری کے نوجوان فٹبالر کے لئے ایک امید اور مستقبل کے درخشاں ستارے ہے جن کی قابلیت جذبے اور محنت کو دیکھ کر میں یہی کہہ سکتا ہو کہ جدوجہد سے ہی انسان مقام حاصل کرسکتا ہے اگر ٹکری کے نوجوان فٹبالر رازق بلوچ کو اپنا فٹبال آئیڈیل مان کر محنت کریں تو مستقبل میں رازق جیسا نام ضرور پیدا کرینگے۔