|

وقتِ اشاعت :   April 7 – 2020

دنیا میں کبھی جنگیں ختم نہیں ہونگی،جنگیں ازل سے تھیں اور ابد تک رہیں گی بس جنگوں کے نام اور انکی ہیت تبدیل ہوتی رہے گی،یہ جنگیں کبھی پہلی جنگ عظیم کے نام پر لڑی گئیں اور کبھی افغان وار کے نام پہ لڑی گئیں لیکن ان کا مقصد اور محورصرف قومی مفاد ہوگا۔آج بھی دنیا میں قومی مفاد کے نام پہ کئی جنگیں لڑی جارہی ہیں اور انہی جنگوں کی وجہ سے دنیا کی طاقتورریاستیں اپنی معیشت اور تجارت کو سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتیں چاہے امریکہ کی شکل میں ہوں یا چائنا کی شکل میں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دنیا میں جنگوں کا خاتمہ ہو۔دنیا میں جنگوں کا وجود ہی سرمایہ دارانہ نظام اور طاقتور ریاستوں کے قومی مفادات سے مطابقت رکھتی ہے۔

جنگ کے دنوں میں اسلحے کی تجارت سے مال بٹورا جاتا ہے جبکہ امن کے دنوں میں ترقی و تعمیر کے نام پہ کمزور قوموں کو لوٹا جاتا ہے۔امریکہ کی خارجہ اور معاشی پالیسیوں میں توسیع پسندی، جنگ و جدل،جارحیت اور مداخلت کا عنصر شامل ہے اور وہ دنیا کی معیشت،اقتصادیات اور عالمی اثر و رسوخ کے لئے تنازعات کو ہمیشہ آلہ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔حال ہی میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔

اس معاہدے کی رو سے امریکہ افغانستان سے فوجی انخلاء کا عمل شروع کریں گا اور طالبان رہنماؤں کو رہا کرنے کے علاوہ اقوام متحدہ سے طالبان پر عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کریں گے جبکہ طالبان افغان سر زمین کو امریکہ پر حملے کے لئے استعمال نہیں ہونے دینگے۔لیکن اگر طالبان نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی تو امریکہ ایک بار پر پوری شدت کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوگا۔ان امن مذاکرات پر اقوام متحدہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے خیر مقدم کیا اور بعض حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیاافغانستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔بظاہر یہ جملہ مختصر اور سادہ سا ہے لیکن اپنے اندر کئی پیچیدگیاں رکھتا ہے۔

امن مذاکرات کی کامیابی کا مطلب افغان عوام کو اس جنگ سے چھٹکارہ مل جانا ہے لیکن دنیا اور خطے کی موجودہ صورتحال سے ا س بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ مشکل ہے افغان عوام انیس سال سے جاری اس جنگ سے چھٹکارہ پاسکیں۔ان امن مذاکرات کے نام پر افغانستان میں وقتی امن تو قائم ہوگا لیکن مستقل امن کا خواب عالمی طاقتوں کے مفادات کے برعکس ہوگا۔ارون دھتی رائے کہتی ہیں کہ امن ہی جنگ ہے اور جنگ ہی امن ہے۔

اس قول کو مدنظر رکھ کر ہم پیشن گوئی کرسکتے ہیں کہ افغانستان میں وقتی امن قائم ہوگا اور اس وقتی امن کا مطلب ایک اور تباہ کن جنگ کی تیاری جس کی سزا عام عوام بھگتے گی۔امریکہ نے اس جنگ میں ایک کھرب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی جبکہ اپنے چوبیس سو فوجی کھودئیے لیکن افغان عوام نے اپناسب کچھ کھو دیا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے،لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی ہوئی،صحت،تعلیم اور تمام شعبوں میں تباہی اور بربادی افغان عوام کا مقدر بنی۔اگر ہم موجودہ امریکہ طالبان مذاکرات کی کامیابی پہ بات کریں تو کئی مسائل آشکار ہوتے ہیں۔ افغانستان میں جاری سیاسی تنازعہ جو صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان جاری ہے یہ سیاسی بحران طالبان اور شدت پسندی کو فروغ دے سکتے ہیں۔

دوسری طرف ایران جسکی حمایت عبداللہ عبداللہ کو حاصل ہے کیونکہ ایران یہ سمجھتا ہے کہ اشرف غنی امریکہ کا کٹھ پتلی ہے اور وہ امریکی اشاروں پہ افغان امور کا انتظام کرتا ہے۔ایران کے مفادات افغانستان سے وابستہ ہیں اس لئے وہ افغان امور میں دلچسپی لینے کے لئے اتحادی کی تلاش میں ہے تاکہ ایران کے مفادات افغانستان سے حاصل کئے جاسکیں۔جبکہ ایک بھارتی حکومت کے منصوبے بھی افغانستان میں جاری ہیں اس لئے انیس سو ننانوے کے مقابلے میں بھارت کی پالیسیوں میں افغان معاملات میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔

انیس سو ننانوے میں بی جے پی کی حکومت میں بھارت نے طالبان کی حیثیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور آج بھارت طالبان کی حیثیت کو تسلیم کرنے پرتیار ہے۔پاکستان بھی افغانستان میں امن کا کردار ادا کرسکتا ہے کیونکہ بہت سے حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا طالبان پہ خاصا اثر و رسوخ ہے۔ایک طرف بھارت اور پاکستان کی آپسی رسہ کشی اور دوسری طرف ماضی میں امریکہ کی جانب سے پاکستان پہ دو غلا پن کا الزام،امریکہ ایران تنازعہ اور مشرق وسطیٰ میں روس،ایران کی مداخلت امریکی پالیسیوں کے برخلاف ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل انخلاء کبھی نہیں کرے گا۔

افغان امن عمل کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ افغان حکومت اور طالبان سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے باقاعدہ مذاکرات کریں اور قیدیوں کی رہائی کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ مذاکرات کا عمل آگے بڑھایاجاسکے لیکن طالبان حکومت سے مذاکرات کے لئے تیار نہیں اور افغان حکومت قیدیوں کی رہائی کے لئے مختلف حیلے بہانوں کاسہارا لیتی ہوئی ڈیڈ لائن پہ ڈیڈ لائن دیتی جارہی ہے۔

حال ہی میں صدر اشرف غنی نے قیدیوں کی رہائی سے انکار کردیا تھا جسکی وجہ سے طالبان کے حملوں میں تیزی دیکھنے میں آئی اورطالبان نے اعلان کیا کہ قیدیوں کی رہائی کے بغیر بین الافغان مذاکرات ناکام ہونگے۔دس مارچ کی ڈیڈ لائن پھر اسکے بعد اپریل کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود قیدیوں کی رہائی کا عمل شروع نہیں ہوسکا بلکہ یہ اطلاعا ت سامنے آتی رہیں کہ بگرام جیل میں طالبان قیدیوں کے ساتھ تشدد آمیز رویہ روا رکھا جارہا ہے جو امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔اس امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکہ ہے۔

کیونکہ موجودہ دنیا کی سیاسی صورتحال، عالمی طاقتوں کے درمیان چپقلش سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ جنگ امریکہ کی ضرورت ہے اور امریکہ کبھی اس جنگ سے نکلنے کی کوشش نہیں کریگا،امریکہ کے لئے معاہدوں کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکڑے سے کم نہیں اور معاہدوں کی خلاف ورزی کا ماضی میں متعدد بار مرتکب ہوا ہے۔موجودہ سیاسی حالات کو دیکھ کر ہم پیشن گوئی کرسکتے ہیں کہ ایک طرف امریکہ طالبان کو مذاکرات کی پیش کش کرتا ہے اور پس پردہ ان مذاکرات کی ناکامی کے لئے حربے آزماتا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلاء کے عمل کو آنے والے الیکشن کے لئے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کریں گے۔

الیکشن میں کامیابی کے بعد امریکہ اس طرح کے جواز پیدا کرنے کی کوشش ضرور کرے گا تاکہ اسی جواز کو استعمال کرتے ہوئے دوبارہ افغانستان میں ہلہ بول سکے کیونکہ عالمی طاقتوں کے اصولوں اور اپنے قومی مفادات کے حصول کے لئے کوئی بھی جواز جائز قرار پاتا ہے۔امن مذاکرات کی ناکامی کا مطلب افغانستان میں ایک مرتبہ پھر تباہی کا دور ہوگا اور اس کا شکار طالبان نہیں بلکہ مفلوک الحال افغان عوام ہونگے۔