ملک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے مگر کیسز کی شرح میں بھی تیزی دیکھنے کومل رہی ہے گوکہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں البتہ ڈاکٹر حضرات بارہا اس جانب اشارہ دے رہے ہیں کہ ٹیسٹنگ کا عمل جس تیزی کے ساتھ کیاجائے گا،کیسز کی تعداد واضح ہوگی اور قوی خدشہ ہے کہ تعداد بڑھے گی،کم نہیں ہوگی۔ اس لئے ڈاکٹر مطالبہ کررہے ہیں کہ لاک ڈاؤن کو نہ صرف برقرار رکھاجائے بلکہ مزید سختی سے اس پر حکومت عملدرآمد کرائے۔ اس وقت لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کو لے کر عوام اگر روزگار کے حوالے سے پریشان ہیں۔
وہیں پر تاجر برادری بھی کاروبار بند ہونے کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کررہی ہے کہ چھوٹے تاجر برادری کو کاروبار کھولنے کی اجازت دی جائے مگر فی الحال حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔نیز رمضان المبارک کے دوران عبادات کے حوالے سے جن 20 نکات پر اتفاق کیا گیا ہے اب ڈاکٹر اس پر نظرثانی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ گزشتہ روزپاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ کورونا کے حوالے سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں،خدا نہ کرے وہ وقت آئے کہ ہمیں سڑکوں پرعلاج کرنا پڑے۔
ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کورونا کیسز کی تعداد ہزاروں سے بہت زیادہ ہے، ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھے گی تو مزید کورونا کیسزسامنے آئیں گے۔ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ آئندہ دو سے چار ہفتے پاکستان کے لیے بہت اہم ہیں، خدارا ہمیں یورپ جیسی صورتحال کی طرف نہ لے جائیں، حکومت کو سعودی عرب اور ترکی جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن مؤثر ہونا چاہیے،کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے یہ آفت مزید بڑھ جائے، ہم نے ٹھوس فیصلے نہ کیے تو امریکا اور یورپ جیساحال ہوگا، ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جن پر پچھتانا پڑے۔
پی ایم اے کے صدر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا تھا کہ مساجد سے متعلق جو ایس او پیز بنائی گئیں وہ قابل عمل نہیں، تراویح اور نمازیں مساجد میں نہیں ہونی چاہئیں، نمازیوں کے درمیان 6،6 فٹ کا فاصلہ رکھنا قابل عمل نہیں، حکومت کو اپنی رِٹ قائم کرتے ہوئے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی درخواست کرتے ہوئے مسئلے کا نوٹس لینے کامطالبہ کیا،ان کا کہنا تھا کہ زندگی رہے گی تو زندگی کا کارخانہ چلے گا، ہر مذہب سے وابستہ پاکستانی سے اپیل ہے کہ احتیاط کی جائے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز کراچی میں بھی ڈاکٹر تنظیموں نے حکومت سے لاک ڈاؤن میں نرمی اور علماء سے مساجد کھولنے کے فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ملک میں جو لاک ڈاؤن کیا گیا وہ ایک مذاق تھا، لاک ڈاؤن پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔ڈاکٹروں نے کاروباری اور تاجر برادری سے بھی تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ 2 ماہ میں بھوک سے کوئی نہیں مرا، کورونا سے 200 جانیں چلی گئیں، ہم نے بھی اپنے کلینکس بند کیے ہوئے ہیں، کاروباری برادری مزید کچھ ہفتے مشکلات کا سامنا کرے۔
اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے سابق ترجمان شہباز گل نے الزام عائد کیا کہ سندھ حکومت خود کورونا پرسیاست سے تھک گئی ہے اس لیے اس نے اب ڈاکٹروں کو آگے کر دیا ہے۔اس وقت پاکستان میں کورونا وائرس سے10 ہزار 927 افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے 230 کا انتقال ہوچکا ہے۔بہرحال لاک ڈاؤن کے باوجود بھی کیسز کا رپورٹ ہونا تشویشناک امر ہے جس کا حکومت کو سختی سے نوٹس لینا چاہئے۔ دوسری اہم بات ڈاکٹر حضرات جو اس وقت فرنٹ لائن پر وائرس کے خلاف جنگ سے لڑرہے ہیں ان کی باتوں کو بھی اہمیت دینا چاہئے۔
اور ان سے مشاورت کے بعد حکمت عملی اپنانی چاہئے جس پر تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملک کے وسیع ترمفاد میں سوچ وبچار کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہئے تاکہ اس خطرناک وباء سے نقصانات کم ہوں۔اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ جاری ہے البتہ جہاں صورتحال بہتر ہورہی ہے وہاں پر جزوی لاک ڈاؤن ہے مگر صورتحال جب تک مکمل واضح نہیں ہوجاتی اس وقت تک کوئی رسک نہ لیاجائے جس سے انسانی بحران جنم لینے کا اندیشہ ہو۔ امید ہے کہ حالات کی حساسیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک بہترین فیصلہ کیاجائے گا جوسب کیلئے قابل قبول اور سود مند ہو۔