|

وقتِ اشاعت :   September 10 – 2014

پشاور: ایک اعلٰی سطح کی انکوائری کمیٹی نے گزشتہ سال ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل توڑنے کے واقعے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سول اور پولیس انتظامیہ کے 58 افسران اور اہلکاروں کی برطرفی اور سخت سزاکی سفارش کی ہے۔ انتظامی محکمے کو جمع کرائی جانے والے نو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکوائری کمیٹی نے جیل کے اندر تعینات 97 پولیس اہلکاروں کی محکمہ جاتی انکوائری کی سفارش بھی کی ہے۔ ڈان کو دستیاب اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ڈویژنل اور ضلعی سطح پر پوری انتظامی مشنری کاغذ کے گھر کی مانند تباہ ہوگئی تھی۔ حکومت کی کوئی عملداری اس دوران کہیں بھی دیکھی نہیں گئی، اور ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل کو محفوظ رکھنے کے لیے مدد کے لیے کوئی آگے نہیں بڑھا۔‘‘ اس غفلت میں ملؤث افسران اور اہلکاروں کی ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے کی جانے والی یہ دوسری انکوائری ہے۔ پہلی انکوائری زیادہ تفصیلات اور گرافک کے ساتھ جیل پر حملے کے فوراً بعد کی گئی تھی۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حکومت نے ان افسران اور اہلکاروں کے خلاف کسی قسم کی چارج شیٹ جاری کی ہے یا ان کے خلاف کارروائی کی ہے۔ خیبر پختونخوا کے اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری سے اس حوالے سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا گیا، لیکن وہ اپنے دفتر میں دستیاب نہیں تھے۔ یاد رہے کہ عسکریت پسندوں کے ایک گروپ نے ڈیرہ اسماعیل خان کی سینٹرل جیل پر گزشتہ سال 29 اور 30 جولائی کی درمیانی رات کو حملہ کیا تھا، اور 253 قیدیوں، جن میں پندرہ ہائی پروفائل دہشت گرد بھی شامل تھے، آزاد کرالیا تھا۔ ان حملہ آوروں نے شیعہ برادری سے تعلق رکھنے والے چار قیدیوں اور دو پولیس اہلکاروں کو ہلاک بھی کردیا تھا۔ اس بےباکانہ حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔ پی ٹی آئی کی قیادت میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے ملکی تاریخ میں جیل توڑنے کے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک، اس واقعہ میں انٹیلی جنس کی ناکامی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ لیکن دونوں انکوائریوں کا وضاحت سے یہ کہنا ہے کہ انٹیلی جنس تو موجود تھی، لیکن پولیس نے لڑنے کی صلاحیت کھو دی تھی۔ اس رپورٹ نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ جیل کے عملے کی ہمدردیاں عسکریت پسندوں کے ساتھ تھیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب حملہ آوروں نے قیدیوں کو رہا کروانے کی کوشش کی تو عملے نے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ انہیں سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ اس ضمن میں انکوائری کمیٹی نے جیل کے عملے کے پچاس سے 59 ارکان کا کردار بھی اہم قرار دیا ہے، جنہیں مشکوک اسناد اور مشتبہ کردار کے باوجود بنوں جیل سے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں تبادلہ کیا گیا تھا۔
پولیس اور رینجرز کے اہلکار سینٹرل جیل کے باہر کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
پولیس اور رینجرز کے اہلکار سینٹرل جیل کے باہر کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
واضح رہے کہ اپریل 2012ء کے دوران بنوں جیل پر حملہ ہوا تھا اور عسکریت پسندوں نے تقریباً 400 قیدیوں کو رہا کروالیا تھا۔ انکوائری کمیٹی نے پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر سختی کے ساتھ تنقید کی اور کہا کہ ڈویژنل اور ضلعی سطح پر اس حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے کی جانے والی پوری مشق خالصتاً مصنوعی تھی اور زمینی سطح پر کوئی اقدام نہیں دیکھا جاسکا تھا۔ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پولیس مکمل طور پر بے ہمت، بزدل اور رہنمائی سے محروم تھی، اس لیے کہ ان کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے پولیس کی تاریخ کاسیاہ باب رقم کیا ہے، جس کے لیے نہیں معاف نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ایک بکتر بند گاڑی میں صرف دو پولیس اہلکار عسکریت پسندوں کے خلاف مزاحمت کے لیے موجود تھے۔ عسکریت پسندوں نے بکتر بند گاڑی پر دو راکٹ فائر کیے اور دونوں پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے۔ یہی وہ کم سے کم مزاحمت تھی، جس کاسامنا عسکریت پسندوں کو کرنا پڑا۔ جیل کے اندر اہم چوکیوں پر تعینات پولیس اہلکاروں کی جانب سے ایک گولی بھی فائر نہیں کی گئی۔ انکوائری کمیٹی نے یاد دلایا ہے کہ پولیس اور جیل خانہ جات کے محکموں سمیت تمام متعلقہ حلقوں کو انٹر سروسز انٹیلی جنس کے مقامی دفتر کی جانب سے خطرے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں، جس پر حملے سے قبل ایک اجلاس میں بھرپور تبادلۂ خیال کیا گیا تھا۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انتظامیہ کو اس حد تک خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسند ڈیرہ اسماعیل خان شہر کے قریب پہنچ گئے تھے، اور وہ یقینی طور پر جیل پر حملہ کریں گے۔ اس سلسلے میں ایک اجلاس بھی منعقد کیا گیا تھا، جس میں فوج سمیت ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینئر افسران نے شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں کسی بھی قسم کے حملے کو ناکام بنانے کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند بھاری ہتھیاروں سے مسلح تھے اور دھماکا خیز ڈیوائسز اور بارودی مواد سے بھری ہوئی گاڑیاں ساتھ لائے تھے۔ یہ حملہ محض ایک آسان فتح کی مانند تھا، اور حملہ آوروں نے پولیس کے بیرونی حصار کو توڑا اور باآسانی جیل کے اندر داخل ہوگئے۔ کمیٹی نے اس وقت کے ڈویژنل کمشنر کے خلاف کوئی کارروائی کی سفارش نہیں کی، اس لیے کہ انہوں نے جیل کی حفاظت کے لیے ضروری کوششیں کی تھیں۔ ریجنل پولیس آفیسر اور ڈپٹی کمشنر کے لیے معمولی ہرجانے کی سفارش کی گئی ہے۔ تاہم رپورٹ کا کہنا ہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سہیل خالد جو پولیس کے انسدادِ دہشت گردی یونٹ میں موجود تھے، ان کا کردار اس حملے کے دوران ایک ٹیم لیڈر کے طور پر قابلِ رحم اور بیزاری پر مبنی تھا۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ’’انکوائری کمیٹی کی رائے ہے کہ ڈی پی او سہیل خالد انتہائی بزدلی کا مظاہرہ کرنے کے بعد بڑی سے بڑی سزا کے مستحق ہیں، اور ان کو ملازمت سے برطرف کیے جانے کی سفارش کی جاتی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ اس وقت ایلیٹ فورس کے ایس پی توحید خالد کی برطرفی جبکہ سابق ڈی ایس پی عبدالغفور خان، سابق ڈی ایس پی صلاح الدین، ریزرو انسپکٹر عمر دراز خان، سابق ایس ایچ او محمد نواز خان، لائن آفیسر نور اسلم اور سابق سپریٹنڈنٹ آف ڈی آئی خان سینٹرل جیل غلام ربانی کے لیے بڑی سے بڑی سزا کی سفارش کی گئی ہے۔ انکوائری کمیٹی نے جیل کے اندر تعینات 97 پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمہ جاتی تحقیقات اور 50 سے زیادہ جیل کانسٹبلز کی ملازمتوں سے برطرفی کی سفارش کی ہے۔