خضدار : بی این پی اور بی ایس او کا خضدار کے اعلی تعلیمی اداروں کے منصوبوں کو ختم کرنے اور جھالاوان میڈیکل کالج خضدار کی زیر تعمیر بلڈنگ کو انتظامیہ کے حوالے کرنے کے خلاف بھر پور جدو جہد کرنے کا فیصلہ،خضدار کے پروفیشنل تعلیمی اداروں کو لسانی بنیاد پر ختم کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور اس سازش میں صوبائی حکومت برابر کردار اد ا کر رہی ہے۔
حکومتی کمیٹی کی سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے تمام حقیقی سیاسی جماعتوں کو نہ صرف خضدار کے تعلیمی اداروں کی بندش بلکہ مسنگ پرسنز،اور عوام کو درپیش دیگر مسائل پرمشترکہ جد و جہد کرنے کی دعوت دیتے ہیں،ایک سیاسی جماعت کے سابق وزیر اپنی بے روزگاری کا غصہ بی این پی پر نکالنے کے لئے میدان میں اتراہے اسمبلی سمیت ہر پلیٹ فارم پر خضدار کے تعلیمی اداروں کی دفاع کے لئے آواز بلند کی جائے گی،طلباء و طالبات پر تعلیم کے دروازے بند ہونے نہیں دینگے۔
ان خیالات کا اظہار بی این پی ضلع خضدار کے سینئر نائب صدر میر شفیق الرحمن ساسولی کابینہ کے دیگر عہدیداران،ممبران کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کیا اس موقع پربی ایس او کے مرکزی کمیٹی کے رکن حفیظ مینگل، بی این پی کے سابق ضلعی سینئر نائب صدر حیدر زمان بلوچ،تحصیل صدر حاجی اقبال بلوچ،آغا سمیع اللہ شاہ،عبدالنبی بلوچ،سفر خان مینگل،ڈاکٹر محمد بخش،سردارزادہ خلیل احمد موسیانی،غلام مصطفی گزگی،عالم فرازمینگل،ندیم گرگناڑی،محمد ایوب عالیزئی،سعید احمد نوتانی سمیت دیگر موجود تھے۔
بی این پی اور بی ایس او کے عہدیداروں کا کہنا تھا حکومتی کمیٹی جس میں عوامی نمائندوں کو نظر انداز کیا گیا تھا چند آفسران پر مشتمل کمیٹی کی جانب سے خضدار کے پروفیشنل تعلیمی اداروں سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی اور وومن وکیشنل سینٹر/ پولی ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے منصوبوں کو ختم کرنے کی سفارش جبکہ جھالاوان میڈیکل کالج کی بلڈنگ کو انتظامیہ کے حوالے کرنے کا عمل خالصتاً لسانی تعصب کی بنیادوں پر ایک حکومتی فیصلہ ہے جس کو بی این پی اور بی ایس او نہ صرف مسترد کرتی ہیں بلکہ اس فیصلہ کے خلاف احتجاج کے تمام زرائع بھی استعمال میں لائیں جائیں گے۔
بی این پی اور بی ایس او یہ واضات کے ساتھ کہنا چاہتی ہے کہ ہماری قیادت نے ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والے نا انصافیوں کے خلاف صف اول کا کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے ہمیشہ بی این پی کی قیادت و کارکنان حکومتی نشانے پر رہے چھ نقاطی فارمولہ سے لیکر بلوچستان میں مسنگ پرسنز کے معاملہ تک ہماری قیادت نے ہر مسئلے پر آواز بلند کی اور اب خضدار کے تعلیمی اداروں کی بندش کا جو مسئلہ ہے اسے بھی ہم ایک قومی مسئلہ سمجھتے ہوئے سخت ردعمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان تعلیمی اداروں کی بندش کا بنیادی مقصد جھالاوان کے طلبا ء طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کر کے انہیں جہالت کے اندھیروں میں دھکیلنے کی ایک حکومتی کوشش ہے جو آج سے نہیں بلکہ ابتداء سے مختلف طریقوں سے جاری ہے ہم اپنی نوجوانوں کے روشن مستقبل کو اندھیری راہوں کی نظر ہونے نہیں دینگے۔
ایک سوال کے جواب میں بی این پی کے رہنماوں کا کہنا تھا کہ بد قسمتی کہیے یا کہ عادت سے مجبور ایک سابق عوامی نمائندے نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں بی این پی کی قائدین کے خلاف ارزہ سرائی کی ہم یہ نہیں سمجھتے کہ تعلیمی اداروں کے مسئلے پر سیاسی دکانداری شروع کی جائے مگر نیشنل پارٹی کے رہنماء اپنی بے روزگاری کا غصہ بی این پی کے قائدین پر نکال کر جو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ مقاصد پورے نہیں ہونگے ہاں ہم چونکہ مشترکہ جدو جہد کرنے کے قائل سیاسی جماعت ہے۔
اس لئے ہم نہ صرف خضدار کے تعلیمی اداروں کے منصوبوں کو ختم کرنے بلکہ مسنگ پرسنز سمیت بلوچستان خصوصا خضدار کے تمام سیاسی،سماجی اور عوامی مسائل پر تمام حقیقی سیاسی جماعتوں کو مشترکہ جدو جہد کرنے کی پیش کش کرتے ہیں اور اس کے لئے ہم نے اپنی جماعت کی ایک کمیٹی بنائی ہے جو ان سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرے گی جو نیک نیتی سے بلوچستان کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی دور حکومت میں وفاق سے خضدار کے لئے ایک دو سو بستروں پر مشتمل ہسپتال کی منظوری پائپ لائن میں تھی اب انہیں فالو کرنے والا کوئی نہیں ہاں اس پارٹی نے گیس کی فراہمی کے لئے بھی اس طرح کے دعوے کئے تھے مگر صورتحال ہم سب کے سامنے ہیں عوام کو بے وقوف بنانا بند کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم صوبائی و وفاقی حکومتوں کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں خہ بہتر یہی ہے کہ ہمارے بچوں پر تعلیمی اداروں کے دروازے بند نہیں کئے جائیں اور صوبائی حکومت لسانی تعصب سے اجتناب کریں ہم اپنی تعلیمی اداروں کے لئے ہر پلیٹ فارم پر جدو جہد کرینگے بی این پی کی کمیٹی تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ کر کے مشترکہ جدو جہد کرنے کی کوشش کرے گی