|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2020

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اور دلخراش واقعہ گزشتہ روز رونما ہو ا،دہشت گردوں نے خواتین اور بچوں کو نشانہ بنایا، معصوم اور نہتے بچوں وخواتین پر حملے وحشیانہ اور بزدلانہ فعل ہے جس کی ہر سطح پر صرف مذمت ہی کی جارہی ہے بلکہ دنیا کے امن کے دعویداروں کو ایسے دہشت گردوں کے خلاف ایک واضح پالیسی اپنانی چاہیے کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ خطہ جنگی حالات کا سامنا کررہا ہے خاص کر افغانستان میں سب سے زیادہ انسانی تباہی دیکھنے کو ملی ہے جس کی ذمہ دار عالمی برادری ہے جس نے اپنے مفادات کے لئے اسے پراکسی کا حصہ بنادیا ہے۔

سرد جنگ سے لیکر نائن الیون کے بعدتک دہائیاں گزر نے کے باوجود جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی، چند روز کی خاموشی کے بعد انسانی چیخ وپکار کی آوازیں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔بہرحال اس خونی جنگ کو روکنے کیلئے حکمت عملی مرتب نہیں گئی گئی تو اس سے عالمی امن کو بھی براہ راست خطرہ ہو گا۔ اس لئے دنیا کو اس جانب توجہ دینی چاہئے کہ امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمہ کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ روز دو حملے افغانستان میں ہوئے، افغانستان کے دارالحکومت کابل میں میٹرنٹی ہوم اور صوبہ ننگر ہار میں جنازے پر ہونے والے حملے میں 37 افراد جاں بحق ہوگئے۔

کابل میں میٹرنٹی ہوم پر مسلح افراد کے حملے میں 2 بچوں، خواتین اور نرسز سمیت 13 افراد جاں بحق ہوئے، واقعے میں بچوں سمیت 15 افراد بھی زخمی ہوئے۔غیرملکی خبررساں دارے کے مطابق کابل کے علاقے دشت بارچی میں پولیس کی وردیوں میں ملبوس مسلح افراد نے اسپتال پر حملہ کیا، حملے کے دوران 2 دھماکوں اور فائرنگ کی آواز سنی گئی، اس دوران 180 افراد اسپتال میں موجود تھے۔خبررساں ادارے کے مطابق حملے کے دوران افغان سیکیورٹی اہلکاروں نے اسپتال سے خواتین، بچوں اور 3 غیرملکیوں سمیت 100 افراد کو بحفاظت نکال لیا جبکہ آپریشن میں تمام دہشت گرد مارے گئے۔

افغام سیکیورٹی حکام کے مطابق حملہ آور اسپتال کے ذریعے اس کے پیچھے موجود گیسٹ ہاؤس میں داخل ہونا چاہتے تھے جہاں کئی غیر ملکی بھی موجود تھے۔واضح رہے کہ اسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ کا انتظام ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز چلارہی ہے جس کے باعث کئی غیرملکی بھی وہاں کام کرتے ہیں۔غیر ملکیوں نے اسپتال کے پیچھے بنی عمارت میں رہائش اختیار کررکھی تھی۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اسپتال پر حملے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے، اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ طالبان کا کابل اسپتال پر حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری جانب افغان صوبے ننگرہار میں بھی مقامی پولیس کمانڈر کے نماز جنازہ میں بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔خود کش حملے میں صوبائی کونسل کے رکن سمیت 24 افراد ہلاک اور 68 زخمی ہوگئے۔ حکام کے مطابق خود کش حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی شناخت ناممکن ہے۔طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب پاکستان کی ترجمان دفتر خارجہ نے کابل میں اسپتال اور ننگرہار میں نماز جنازہ پر دہشت گرد حملوں کی مذمت کی ہے۔ترجمان کے مطابق کابل میں اسپتال اور ننگرہارمیں نماز جنازہ پر دہشت گردحملے کی مذمت کرتے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ کابل میں اسپتال پر حملہ غیر انسانی اور بزدلانہ فعل ہے جبکہ ننگرہار میں نماز جنازہ پر دہشت گرد حملہ قابل مذمت ہے۔

افغانستان میں اس وقت یہ سب کچھ ہورہا ہے جب امن عمل کے نکات پر عملدرآمد کیاجارہا ہے شاید کچھ ایسی قوتیں اب بھی افغانستان کو اپنے پراکسی کا حصہ بنانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے گروہی مفادات حاصل کرسکیں حالانکہ امن عمل کیلئے پاکستان سمیت عالمی برادری نے بڑی تگ ودو کی کہ جلد افغانستان میں امن قائم ہوسکے اور ایک ایسی حکومت کی تشکیل ممکن ہوسکے جو افغان باشندوں کیلئے قابل قبول ہوتاکہ اس خطے سے جنگ اور شرپسندی کاخاتمہ ممکن ہوسکے اور حالات بہتری کی طرف جاسکیں مگر کچھ قوتوں کو یہ قبول نہیں کہ اس خطے میں دیرپا امن قائم ہوسکے۔

بہرحال سب کو ملکر ایسے عناصر کے خلاف یکجا ہونا چاہئے تاکہ دہشت گردی کے ایسے دلخراش واقعات کو نہ صرف روکا جاسکے بلکہ اس مائنڈ سیٹ کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے تاکہ خطے سمیت دنیا میں امن کا قیام ممکن ہو سکے وگرنہ اس طرح کے واقعات رونما ہونگے تو افغان امن عمل کے حوالے سے بھی آنے والے دنوں میں مشکلات پیدا ہونگی۔ اس لئے تمام فریقین کو چاہئے کہ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کیلئے حکمت عملی مرتب کریں تاکہ افغانستان میں حقیقی معنوں میں قیام امن ممکن ہوسکے۔