|

وقتِ اشاعت :   May 14 – 2020

قلات: قلات میں کولڈ اسٹوریج نہ ہو نے کی وجہ سے ہر سال زمینداروں کی کروڑوں روپے کے پھل ضائع ہو جاتی ہیں اگر قلات میں کولڈ اسٹوریج قائم کر کے قلات میں پیدا ہونے والے پھلوں کو اسٹور کیا جائے تو اس سے نہ صرف حکومت کو بھاری زرمبادلہ مل سکتی ہے بلکہ مقامی زمینداروں کے پھل بھی گل سڑ جانے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

قلات میں سینکڑوں ایکڑ ارضی پر پھیلے پھلوں کے باغات جن میں سیب آڑو خوبانی چیری بلیک امبر آلوچہ سنٹروزہ انگور توت اور دیگر قیمتی پھل شامل ہیں اور ان باغات سے ہزاروں گھرانوں کے چھولے جلتے ہیں قلات میں ہر سال ماہ مئی کے وسط سے پھول تیار ہوکر مارکیٹ میں آتے ہیں اور یہ سلسلہ دسمبر کے مہینے تک چلتا ہیں اور اس دوران بڑی مقدار میں مختلف پھل تیار ہو کر مار کیٹ میں آجاتے ہیں۔

جس کی وجہ سے مقامی زمینداروں کو اس کی مناسب معاوضہ نہیں ملتی ہے اکثر اوقات پھل کو مارکیٹ ہی نہیں ملتی اور زمیندار پھلوں کو درختوں میں ہی چھوڑ جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہیکہ مارکیٹ نہ ملنے کی وجہ سے پھلوں کو مارکیٹ کے لیئے تیار کرکے انہیں مارکیٹ تک پہنچا نے میں زیادہ خرچہ ہو جاتی ہیں اور پھل کو مطلوبہ مارکیٹ نہیں ملتی اورپھل کو مطلوبہ مارکیٹ نہ ملنے کی وجہ سے وہ گل سڑ جاتی ہیں۔

جس سے زمینداروں کو کرو ڑوں روپے کا نقصان اٹھا نا پڑ تا ہیں قلات کے عوامی حلقوں کا کہنا ہیکہ اگر قلات میں پھلوں کو اسٹور کرنے کے لیئے ایک کولڈ اسٹوریج قائم کیا جائے تو زمینداروں کی سالانہ کروڑوں روپے کے پھل ضائع ہونے سے بچ جائیں گے اور اگر حکومت انہیں بیرون ملک ایکسپورٹ کرے گی تو اس سے بھاری زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہیں۔