|

وقتِ اشاعت :   May 15 – 2020

غلام صرف ایک شخص ایک فرد نہیں ہوتا غلامی صرف فرد یا قوم سے آزادی چھن جانے کا نام نہیں ہے اور نا ہی اپنی مرضی سے زندگی نا جینے کا نام ہے غلامی ایک گہرا روگ ہے ایک خوفناک مرض ہے۔۔جب ایک قوم غلام ہوتی ہے نا تو صرف اس قوم کے لوگ غلام نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ پوری دھرتی غلام ہوتی ہے پورا خطہ جس میں غلام قوم آباد ہوتی ہے غلامی کا لحاف اوڑھ لیتا ہے۔وہاں کی فضاء چرند پرند وہاں پہ پھیلا امبر سب غلام ہوجاتے ہیں۔ وہاں کی مٹی میں غلامی کی بو ہوتی ہے۔غلاموں کی زمین پہ پہلے بلند وبالا سنگلاخ پہاڑ ان پہاڑوں کا سینہ چیرتی سرنگیں اور ان پہاڑوں کی گود میں پلنے والے نایاب جانور سب غلام ہوجاتے ہیں۔

اس زمین پہ اڑتی رنگ برنگی تتلیاں اور قوس قزاح کے رنگ بھی غلامی کی چادر اڑھ لیتے ہیں۔اس زمین پہ موجود سنہری چڑیاں ان چڑیوں کے سینہ میں دھڑکتا دل بھی غلام ہوتا ہے۔پہاڑوں سے نکالتا سونا چاندی ان کے ذرے ذرے اور زمین سے نکلتا گیس وتیل اور بے شمار معدنیات بھی غلامی کے سایہ میں لپٹ جاتی ہیں۔ اس زمین پہ بہتے چشمے آبشار وہاں پہ برستی رم جھم کی بوند بوند تک غلام ہوتی ہیں۔وہاں موجود گھنے جنگل کا پتا پتا غلام ہوتا ہے۔ وہاں کی نسلیں وہاں کی قبریں وہاں کا ذرہ ذرہ قطرہ قطرہ غلام ہوتا ہے۔تم روتے ہو صرف تم غلام ہو۔تمھیں معلوم ہے۔

تمہاری سوچ غلام ہے۔تمہاری دھرتی کی عورتیں اور ان کے سر کی چادریں ان کا وجود غلام ہے۔یہ غلامی دنیا کی سب سے بڑی سزا ہے،یا پھر اسے بیماری ہی کہہ دیں۔غلامی ایک ناسور ہے۔پتہ ہے جب تمہاری ماں کی گود اجاڑی جاتی ہے تو اسکی سانس تھمنے لگ جاتی ہے۔فضامیں اس کی چیخیں گونجنے لگتی ہیں۔پھر اس ماں کے پوری وجود سے ایک سرد آہ نکلتی ہے۔وہ آہ بھی غلام ہے،تمہاری دھرتی کے آنسو بھی غلام ہیں۔غلام لوگوں کے شہر دیہات سب غلام ہوتے ہیں۔ غلام نسل کی خاموشی ان کے جذبات ان کا لہو غلام ہوتا ہے۔ان کی زبان بھی غلام ہوتی ہے۔

غلام قوم کا دل آنکھیں روح تک غلام ہوتی ہیں۔ان کی شناخت بھی غلام ہوتی ہے۔اس قوم کی تعلیم پہروں میں گھنگروں ڈال کہ جاہلوں کی طرح مست ناچ رہی ہوتی ہے،وہ قوم دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال نہیں سکتی،کیونکہ بات گھوم کے غلامی پہ رک جاتی ہے،دنیا سوچ رہی ہے خلا کیلئے اور غلامی میں جکڑی قوم اپنے کمرے کے انجان کونے میں خاموش غلام ہے۔میں نے پہاڑوں کو روتے دیکھا ہے۔

میں نے چیختے چشموں کو خاموش ہوتے دیکھا ہے، میں نے گواڑخ کی روح پہ غلامی کے رنگ محسوس کیے۔پتہ ہے غلام سوچوں کی ہتھکڑیاں بہت بھاری ہوتی ہیں۔غلام قوم ساری زندگی گم نام گزار دیتی ہے۔غلامی روح کو تڑپاتی ہے۔غلامی میں ماوں کی کوکھ سے بھی غلامی جنی جاتی ہے۔غلام صرف ایک فرد نہیں پوری دھرتی ہوتی ہے پورا خطہ غلام ہوتا ہے۔

معلوم ہے فرانزفینن کہتا ہے۔

غلام کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آقا کے ذہن سے سوچتا ہے”

اور یہ حقیقت ہے غلام کا کوئی ذہن کوئی سوچ کوئی وجود نہیں ہوتا وہ بس ایک مہرا ہوتا ہے۔فرد کی غلامی نسلوں کی دھرتی کی غلامی میں بدل جاتی ہے اور مختلف سمت میں چلنے والی سرد اور گرم ہوا موسم کی ہر رت اس دھرتی پہ غلامی کے سیاہ اندھیروں میں لپٹ جاتے ہیں۔