دنیا میں سب سے پہلے اولیت اپنی معاشی پالیسی کو دی جاتی ہے مگر اس کی کامیابی کی بنیاد بہترین پالیسی اور قانون کی عملداری ہے، سیاستدانوں سے لے کر تمام شعبوں پر اسی شعبہ سے وابستہ ماہرین کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ گوکہ چند ممالک میں سرمایہ دار طبقہ اقتدار پر براجمان ہونے کا خواہش مند ہوتا ہے اور اس کی تکمیل کیلئے اپنا سرمایہ اور اثرورسوخ لگاتا ہے تاکہ وہ اپنی تجارت اور کاروبار کو وسعت دے سکے مگر اس قدر بھی وہاں اتنی آزادی نہیں کہ عوامی دولت کو مال غنیمت سمجھ کر انتخابات کی جیت کے بعد لوٹ کر اپنی تجوریاں بھریں بلکہ وہاں قانون کی کسی حد تک عملداری اور احتساب کا ایک شفاف عمل بھی موجود ہے۔
اس لئے وہاں آسانی سے کرپشن نہیں کی جاسکتی۔اسی طرح بعض ممالک میں آمرانہ اور شہنشاہیت طرز کی حکمرانی قائم ہے جو موروثی طور پر ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتی آرہی ہے مگر ایک بہترین معاشرے میں اسے کسی طور پر بھی اچھا عمل نہیں سمجھا جاتا بلکہ عوامی حقوق پر ڈاکہ اور جبر تصور کیا جاتا ہے۔ بہرحال ان ممالک میں بھی معاشی صورتحال پاکستان سے کئی گنا بہتر ہے۔
وہاں لوگ معاشی حوالے سے خوشحال ہیں اگر دیگر آزادی نہیں توکم ازکم بیروزگاری اور غربت کا خوف بھی موجود نہیں،البتہ ہمارے ملک میں طرز حکمرانی کی تاریخ اس قدر بدتر رہی ہے کہ گورننس سمیت کسی بھی شعبہ میں ایمانداری اور شفافیت دکھائی نہیں دیتی جس کی بڑی وجہ سیاستدانوں کی بدنیتی اور بے ایمانی ہے جنہوں نے ملک میں قانون کی بالادستی کی بجائے اپنے مفادات کو زیادہ اہمیت دی،کرپشن کو ایسا رواج دیا کہ پورے نظام کو کرپٹ بناکر رکھ دیا اور عوامی سطح تک اس بے ایمانی اورکرپٹ مائنڈ کو منتقل کیا گیا، اس لئے کوئی بھی بڑا بحران جب سر پہ آتا ہے تو سب سے پہلے ہماری معیشت لڑکھڑا جاتی ہے اور سنبھلنے کی بجائے مزید گراوٹ کا شکار ہوتی ہے۔
جمہوری نظام کا بنیادی مقصد عوامی مفادات کا تحفظ ہے مگر یہاں چند اشرافیہ نے ملک کو دیوالیہ بناکر رکھ دیا ہے،کوئی بھی بیوپاری کسی بھی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرکے انتخابات جیت جاتا ہے اور اپنے لگائی گئی رقم سود سمیت سسٹم کو کرپٹ کرکے وصول کرتا ہے جس کے بعد کوئی پوچھ گچھ نہیں اس لئے نالائق نمائندگان کی بڑی لاٹ ایوانوں میں دکھائی دیتی ہے۔
حالانکہ تمام سیاسی جماعتیں یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتیں کہ وہ عوامی اور انقلابی جماعت ہیں جنہوں نے جمہوریت اور قانون کی بالادستی کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا مگر تاریخ تلخ ہے اور وہ آئینہ ہے جس میں سب کے چہرے واضح ہیں۔بیچاری عوام کیا احتساب کرے گی جسے خود شاٹ کٹ کے راستے اسی نظام کے اندر دکھائے گئے ہیں۔
بہر حال کورونا وائرس کی وباء کے بعد لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملکی معیشت پر برے اثرات تو پڑنے ہی تھے اور اس کے اثرات آئندہ کئی سال تک موجود رہیں گے چونکہ ہماری معیشت ایسی لاغر ہے کہ وہ ان بحرانات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔کاش کے ماضی میں ذاتی وگروہی مفادات کی بجائے ملکی مفادات کے تحت پالیسیاں بنائی جاتیں تو شاید ایسے بحرانات کے دوران ملک شدید مالی بحران کا شکار نہ ہوتا،تھوڑا بہت فرق پڑنے سے بھی معاشی صورتحال سنبھل سکتی تھی مگر حالات سب کے سامنے ہیں۔
موجودہ لاک ڈاؤن پر وزیراعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ ہم مزید اس کے متحمل نہیں ہوسکتے، کورونا وائرس کے سبب پاکستان میں 15کروڑ لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ہم اتنے لوگوں کا خیال نہیں رکھ سکتے، لہٰذا ایس او پیز کے تحت تمام کاروبار کھولیں گے تاکہ عوام بھوک سے نہ مرے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم لاک ڈاؤن کے معاملے پر یورپ کی تقلید نہیں کر سکتے کیونکہ وہاں پاکستان جیسی غربت نہیں ہے۔ ہم لاک ڈاؤن کرکے بزنس بند نہیں کرسکتے۔
جب تک ویکسین نہیں آجاتی اس وقت تک وائرس کنٹرول نہیں ہوگا، ہمیں وائرس کے ساتھ زندگی گزارنی ہوگی۔ڈھائی کروڑ مزدور وہ ہیں جو دن یا ہفتے کی کمائی پر گزارا کرتے ہیں، اگر مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہیں تو ان ڈھائی کروڑ مزدوروں کا کیا ہوگا۔لوگوں کا کورونا سے زیادہ بھوک سے مرنے کا خدشہ تھا، پاکستان نے مشکل سے 8ارب ڈالرکاریلیف پیکج دیا۔ اب ہم لاک ڈاؤن کے مزید متحمل نہیں ہوسکتے۔
یہ ایک حقیت ہے کہ اگر مزید لاک ڈاؤن کیا گیا تو شاید صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے اس لئے معاشی سرگرمیوں کو بحال رکھنے کیلئے ایس اوپیز پر ہی اکتفا کیاجائے وگرنہ بھوک وافلاس کی وجہ سے ایک نیا انسانی بحران پیدا ہوگا جوایک نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، لہٰذا لاک ڈاؤن میں نرمی کو برقرار رکھتے ہوئے اسی پالیسی کو اپنائی جائے جب تک ویکیسئن تیار نہیں ہوتا۔