|

وقتِ اشاعت :   May 19 – 2020

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے بعد یہ خدشہ موجود تھا کہ چند ممالک اس عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے پراکسی وار کرینگے کیونکہ نائن الیون کے بعد کابل میں ان کی گرفت مضبوط تھی جو افغانستان کے ذریعے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے تھے اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت اس وقت سب سے زیادہ امن عمل کی کامیابی سے پریشان دکھائی دے رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل میں آئے جس میں تمام افغان قیادت ایک پیج پر ہو۔

امریکی انخلاء سے بھارتی اثر کا ختم ہونا یقینی ہے جو کہ وہ نہیں چاہتا اس لئے افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کررہا ہے حال ہی میں اس میں شدت لائی گئی ہے تاکہ امن عمل میں نہ صرف خلل پڑے بلکہ فریقین کے درمیان غلط فہمیاں پیداکی جائیں اور جنگی ماحول کو بڑھاوا دیتے ہوئے امریکی فوج کی انخلاء کو روکا جائے۔ مگر امریکی اور عالمی برادری کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اگر اس طرح کی سازشیں رچائی گئیں اور مسلسل افغانستان میں مداخلت کرکے دہشت گردی کو ہوا دی گئی تو اس سے پوری دنیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہونگے،کئی دہائیوں سے جاری امن عمل کی کامیابی پر پانی پھر جائے گا، اس لئے بھارتی نقل وحرکت کو افغانستان میں مکمل طور پر نہ صرف محدود رکھا جائے بلکہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔

اور براہ راست اس پر دباؤڈالا جائے تاکہ خطے میں عدم استحکام نہ بڑھ سکے۔ پاکستان کی جانب سے عالمی برادری کی توجہ بارہا بھارتی سازشوں کی جانب مبذول کرائی گئی ہے کہ بھارت خطے کے امن کو تباہ کرنے کیلئے کشمیر میں بھی مظالم ڈھارہا ہے مگر عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اگر یہی روش برقرار رکھی گئی تو یقینا یہ مستقبل کے امن کیلئے انتہائی خطرناک نتائج برآمد کرے گا۔ پاکستان کی جانب سے ہمیشہ افغانستان میں قیام امن اور خوشحالی کیلئے نہ صرف کوششیں کی گئیں بلکہ براہ راست اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ثالث کے طور پر بھی اپنی خدمات عالمی برادری کو پیش کی گئیں۔ گزشتہ روز دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان نے افغانستان کی سیاسی قیادت کے درمیان معاہدے کا خیر مقدم کیا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اس اہم موقع پر ضروری ہے کہ تمام لیڈر مل کر کام کریں۔ افغان سیاسی قیادت کا مل کر تعمیری کردار افغان عوام کے مفاد میں ہے اور ان کی مفاہمت پائیدار امن کے قیام میں مدد گار ہو گی۔انہوں نے کہا کہ افغان قیادت کی مفاہمت سے کورونا وبا کے مقابلے میں بھی مدد ملے گی۔دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا طالبان معاہدے نے افغانستان میں امن و مفاہمت کیلئے تاریخی موقع میسر کیا، تمام افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات کا فوری آغاز ناگزیر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تمام افغان دھڑے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ پاکستان پرامن، متحد، مستحکم اور خوشحال افغانستان کیلئے افغان عوام کا ساتھ دینے میں پرعزم ہے۔

واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان شرکت اقتدارکا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ دونوں فریقین نے طے پانے والے معاہدے پر دستخط بھی کردئیے ہیں۔ اس بات کا اعلان صدر اشرف غنی کے ترجمان صادق صدیقی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری اپنے ایک پیغام میں کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی افغان قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ ہوں گے۔صدر اشرف غنی کے ترجمان کے مطابق عبداللہ عبداللہ کی ٹیم کے اراکین کو وفاقی کابینہ میں بھی نمائندگی دی جائے گی۔

پاکستان کی اس وقت سب سے بڑی کوشش افغان امن عمل کی کامیابی ہے تاکہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہوسکے جس سے خطے میں استحکام آئے گا اور اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کو بھی پہنچے گا۔لہذا ان سازشی ممالک کو عالمی برادری لگام دے جو افغان سرزمین کو دہشت گردی کیلئے استعمال کررہے ہیں جہاں معصوم انسانی جانوں سے کھیلا جارہا ہے اب اس خونی کھیل کو رک جانا چاہئے اور افغان قوم کو اپنے مستقبل کے فیصلہ کا اختیار دینا چاہئے۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان شرکت اقتدار نیک شگون ہے اس سے ملابرادران کو بھی مذاکرات کے حوالے سے آسانیاں پیدا ہونگی جو تمام فریقین کے ساتھ ملکر بات چیت کرینگے۔ امید ہے کہ اس کے بہترین نتائج برآمد ہونگے جس سے افغانستان میں خوشحالی کے راستے کھل جائینگے۔