شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ اور ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء نے کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کردی۔ شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ واجد ضیاء نے وزیراعظم کے معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی جس میں انہوں نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔ 346 صفحات پر مبنی شوگر کمیشن کی حتمی رپورٹ میں شوگر ملز مالکان پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیا ہے اور 200 سے زائد صفحات کی رپورٹ کے ساتھ شوگر ملز مالکان کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔ فرانزک آڈٹ میں شوگر ملز کی پیداوار اور فروخت کے حوالے سے بھی تفصیلات شامل ہیں۔
جب کہ چینی کے بے نامی خریدواروں کا ذکر اور ای سی سی کے فیصلے سے متعلق امور بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے کی اجازت کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔فرانزک آڈٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چینی مافیا کی جانب سے سٹہ کیسے کھیلا گیا۔ وزیراعظم کو رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری اور مرکزی پوائنٹ سے آگاہ کیا جائیگا اور تفصیلی بریفنگ دی جائے گی جبکہ واجد ضیاء الگ سے بھی وزیراعظم کو بریف کریں گے۔واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کاسب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنماء جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔
اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ سطح کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کا انتظار کررہے ہیں جو 25 اپریل تک کرلیا جائے گا تاہم بعد ازاں کمیشن کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی۔چینی بحران جب سامنے آیا تھا تو اس دوران ایک بہت بڑا ہنگامہ برپا ہوا جب پی ٹی آئی کے اہم عہدیدار اوراتحادیوں کے ملوث ہونے کے شواہد آئے تو حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرناپڑا مگر جب رپورٹ میں نام سامنے لائے گئے تو عمران خان پر جہاں تنقید ہورہی تھی اس کے بعد اسے قابل تعریف امرٹھہرایا گیا کہ حقائق کو سامنے لانے کیلئے کسی طرح کی رعایت نہیں برتی گئی بلکہ مزید یہ کہاگیا کہ ملوث افراد کو ہر حال میں سزا دی جائے گی۔
اب دوسرا امتحان فرانزک رپورٹ کے شواہد کے بعد کئے جانے والے فیصلوں کا ہے کہ حکومت ان افراد کے خلاف کس قسم کی کارروائی عمل میں لائے گی کیونکہ اب بھی لوگوں کی نظریں اس جانب مبذول ہیں کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائینگے تاکہ آئندہ کسی بھی حکومت یا بااثر شخصیت کو یہ شے نہیں ملے کہ وہ نہ صرف قومی خزانہ کو نقصان پہنچائیں بلکہ عوام کو لوٹنے کے راستے ڈھونڈتے ہوئے ناجائز دولت اور جائیدادیں بناسکیں۔ بہرحال ماضی کی حکومتوں کی اقرباء پروری اور کرپشن کی کھلی چھوٹ نے ملک کا دیوالیہ بناکر رکھ دیا تھا جس کا خمیازہ آج بھی عوام بھگت رہی ہے۔
کیونکہ کبھی بھی بااثر شخصیات پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا بلکہ قانون کو اپنے تابع رکھتے ہوئے مفادات اور مراعات حاصل کی گئیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم عمران خان ایک تاریخ رقم کرینگے اور ایک ایسی راویت کی بنیاد رکھی جائے گی کہ کوئی بھی طاقتور شخص قانون سے بالاتر نہیں ہوگا بلکہ سزاوجزا سب کیلئے یکساں ہوگا اور حکومتیں اپنی بہترین گورننس کے ذریعے عوام دوست پالیسیاں اپنائینگی تاکہ کرپشن جیسے ناسور سے ملک کو چھٹکارا مل سکے۔