|

وقتِ اشاعت :   May 23 – 2020

وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت ظفر مرزا کا کہنا ہے کہ مارکیٹوں میں عوام کا ہجوم ہے اور صورتحال میں نتائج جو بھی ہوں اس کے ذمہ دار عوام خود ہوں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر مرزا نے کہا کہ 24 گھنٹوں میں نئے کیسز اور اموات کی تعداد تشویش ناک ہے، کورونا روکنے کا بنیادی طریقہ سماجی میل جول میں کمی اور فاصلہ رکھنا ہے، 50 سال سے زائدعمر کے لوگ اجتماعات میں جانے سے گریزکریں جبکہ دکانوں اور ریل سمیت ٹرانسپورٹ کے لیے ایس اوپیزبنائیں۔انہوں نے کہا کہ مارکیٹوں اور دکانوں میں لوگوں کاجم غفیر دیکھا جارہا ہے، اس کے نتائج جوبھی ہوں گے اس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے کیونکہ ہم کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ نماز عید کے موقع پر ایس او پیز کا خیال رکھیں اور بہتر ہے۔

نماز گھر پر ہی پڑھیں، ہجوم والی جگہوں پر ماسک پہننا ضروری ہے اور سماجی فاصلے کاخیال نہیں رکھیں گے تو صورتحال خراب ہوسکتی ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسزکی تعداد اب تک کیسز 50 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ ہلاکتیں ایک ہزار سے زائد ہیں۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا طریقہ سماجی فاصلہ اور احتیاطی تدابیر ہیں، یہ بات عام لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہوچکی ہے مگر عوامی ہجوم خاص کر مارکیٹوں میں اس پر عملدرآمد کرانا کس کی ذمہ داری ہے؟ سب سے پہلے موازنہ انتہائی ضروری ہے کہ دنیا کے جتنے ممالک میں لاک ڈاؤن کافیصلہ کیا گیا اس دوران کس حد تک ریاستوں نے سخت اقدامات اٹھائے تھے، جہاں سے کوروناوائرس کے کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے ان علاقوں کو مکمل سیل کیا گیا۔

کسی طرح کی کوتاہی نہیں برتی گئی اور نہ ہی رعایت دی گئی۔ لاک ڈاؤن کے بعد عوام کو تمام تر سہولیات خاص کر اشیائے ضرورت کی چیزیں ان کی دہلیز پر فراہم کی گئیں،لوگوں کو کام کے دوران بھی ریلیف دیا گیا کہ جو افراد گھر سے کام کرسکتے ہیں تو وہ اپنے گھر میں بیٹھ کر کام کریں جبکہ غیر حاضر ی کی صورت میں کٹوتی نہ ہونے کے برابر تھی تاکہ لوگ مالی ومعاشی مشکلات کی وجہ سے پریشان ہوکر باہر نہ نکلیں۔ اوربعد ازاں جب لاک ڈاؤن میں نرمی کافیصلہ کیا گیا تو اوقات کار طے کی گئیں، سماجی فاصلے اور احتیاطی تدابیر کو یقینی بنانے کیلئے جگہ جگہ پر چیکنگ کیلئے اہلکار تعینات کئے گئے،خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانہ کی سزا دینے کافیصلہ کیا گیا،اس طرح کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ آج وہاں معمولات زندگی بحال ہوچکی ہے۔

اب ہمارے ہاں تجارتی مراکز کو کھول دینے کے بعد مقامی انتظامیہ سمیت حکومت بری الذمہ ہورہی ہے کہ کورونا وائرس اگر پھیلا تو اس کی ذمہ دار عوام ہوگی حالانکہ فیصلہ اور اس پر عمل کرانا حکومت کی نہ صرف ذمہ داری ہے بلکہ مکمل اختیارات کے ذریعے وہ سخت اقدامات بھی اٹھانے کا حق رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے تجارتی مراکز میں جو جم غفیر دکھائی دے رہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں،اہلکار ڈیوٹی پر مامور ہیں مگر وہ صرف اوقات کار کے دوران دکانیں کھولنے اور بند کرنے تک کے پابند ہیں، اگر دکانوں میں ایس اوپیزپر عمل نہیں ہورہا، اہلکار سخت کارروائی کرسکتے ہیں۔

اور مقامی انتظامیہ کے ساتھ ملکر دکانوں کو سیل کرکے دوسروں کو ایک واضح پیغام بھی دے سکتے ہیں مگر سارا ملبہ عوام پر ڈالنا اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا حکومت ایس اوپیز پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے سخت اقدامات کرے اور جو خلاف ورزی کرے ان پر جرمانہ عائد کیاجائے جبکہ عوام بھی ماسک اور گلوز سمیت دیگر ضروری حفاظتی اقدامات اٹھائیں تاکہ اس خطرناک وائرس کا شکار نہ ہوں۔