|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2020

چین نے پیر کو اعلان کیا کہ اس کے قومی اثاثوں کی مالیت ایک سو بیاسی ٹریلین ہے اور اسے امید ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ معیشت کو بحال کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ چین اندرون ملک قوت خرید میں اضافے کے ذریعے اپنی معشیت کو فروغ دے گا۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس کی غیر یقینی حالت کی وجہ سے عام صارف احتیاط سے خرچ کرے گا اور جو معاشی نقصان ہو چکا ہے اس کی تلافی شائد ممکن نہ ہو سکے۔

تائی پے کے ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے صدر لیانگ کو یوان نے وی اے او کو بتایا کہ انفرادی طور پر آمدنی کم ہو رہی ہے اور کرونا وائرس نے ہر ایک کے مالی حالات پر اثر ڈالا ہے۔ اس لیے، یہ ممکن نہیں کہ ماضی کے نقصانات کا ازالہ جلد ہو سکے۔

چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ چین کی قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن کے چیرمین، نینگ شی زے نے پیر کو نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی کھپت میں مارچ کے مقابلے میں اپریل میں آٹھ اعشاریہ تین فی صد کا اضافہ ہوا ہے، حالانکہ پچھلے سال کے اس ماہ کے مقابلے میں یہ ساڑھے سات فی صد کم ہے۔

نینگ کا کہنا ہے کہ مئی میں مزید بہتری کی توقع ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چین کی حکومت نے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں، جن سے اشیائے صرف اور خدمات کے شعبے کو فروغ دیا جا رہا ہے، تاکہ لوگ اپنی خریداری بڑھا سکیں۔

چین انٹرنیٹ کے 5G نیٹ ورک کی تعمیر کے سلسلے میں بھی اپنے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا مقصد بھی یہی ہے کہ ای کامرس کو فروغ دیا جائے۔

نینگ کے مطابق، چین ملکی معیشت کو فروغ دینے کے لیے 140 ارب ڈالر کے قومی 526 ارب ڈالر کے صوبائی بانڈ جاری کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ روزمرہ کے اخراجات میں اضافے سے ملکی کھپت میں اضافہ ہو گا۔

ہانگ کانگ میں قائم چائینا CITIC بینک انٹرنیشنل لمیٹیڈ کے چیف اکانومسٹ لیاو کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتےکہ چین پر بھاری قرضوں کا بوجھ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ بچت کی اونچی شرح کے باوجود صارفین اپنے اخراجات میں اس وقت تک اضافہ نہیں کریں گے جب تک کہ لاک ڈاون سے متعلقہ تمام پالیسیوں کو ختم نہیں کر دیا جاتا۔ لیاو کا کہنا ہے کہ قرضے کا تناسب کل قومی پیداور کے مقابلے میں ساٹھ فی صد ہے، جبکہ کل قومی پیداوار کا پچپن فی صد ملکی کھپت سے حاصل ہوتا ہے، اس میں نجی کھپت چالیس فی صد ہے اور بقیہ حکومت پورا کرتی ہے۔

اقتصادیات کے ماہرین اس بارے میں مختلف رائے رکھتے ہیں کہ چین کی معیشت وائرس کی وجہ سے جس تیزی سے زوال پزیر ہوئی تھی، اتنی تیزی سے یہ واپس اپنے مقام کو لوٹ سکے گی۔ اس شک کو تقویت اس بات بھی ملی کہ اس جمعے کو صدر شی نے نیشنل پیپلز کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اس سال معاشی نمو کا کوئی ٹارگٹ نہیں دیا۔

لیانگ کا کہنا ہے کہ چین کا اقتصادی پروگرام غیر واضح ہے، کیوں کہ ملکی لیڈروں نے ملے جلے اشارے دیے ہیں۔ لیانگ کا خیال ہے کہ اگر چین کی معیشت بحال بھی ہوئی تو یہ اوپر جا کر پھر نیچے آئے گی اور پھر اوپر جائے گی۔

اس کے علاوہ عالمی سطح پر بھی چین کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ عالمی سطح پر چین مخالف جذبات بھی پیدا ہوئے ہیں۔ کچھ ممالک اب چین پر مکمل انحصار نہیں کریں گے اور وہ چین کے اثر و نفوذ سے باہر بھی نکل سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ کاروبار کی منقلی بھی چینی معیشیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ چین کے پڑوسی ممالک میں مزدوری اور زمین سستی ہے اور اس لیے بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے کارخانے چین سے نکال کر دوسرے ملکوں لگا رہی ہیں۔

بہر حال چین اپنی معیشت کی بحالی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا اور اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ عالمی سطح پر کرونا وائرس کا زور ٹوٹے، اور صرف چین ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس پر قابو پایا جائے۔