|

وقتِ اشاعت :   June 7 – 2020

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک مزید لاک ڈاؤن برداشت نہیں کر سکتا اس کا سب سے زیادہ نقصان غریب لوگوں کو ہوتا ہے۔ٹائیگر فورس کے رضا کاروں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر محدود لاک ڈاؤن کیا تو کورونا ٹائیگر فورس کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں ایسے رضاکاروں کی ضرورت تھی جو عوام میں جا کر کورونا وائرس سے بچاؤ کے طریقوں کے حوالے سے آگاہی دیں۔وزیراعظم نے یہ کہا کہ ہم واحد مسلمان ملک تھے جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ رمضان المبارک کے دوران مساجد کھلی رکھی جائیں گی۔

اور اس سلسلے میں ایس او پیز پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ مخالفین نے ہمارے اس اقدام کی بہت مخالفت کی لیکن ہمارے مشاہدے میں یہ بات آئی کہ مساجد سے کورونا کا پھیلاؤ نہیں ہوا اور آج دنیا کے دیگر ممالک بھی ایس او پیز پر عمل کر کے مساجد کھول رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اب بھی عوام کو احتیاط کروائیں تو ہم اس مشکل وقت سے نہیں گزریں گے جس سے دنیا کے دیگر ممالک گزرے۔وزیراعظم نے کہا کہ بزاریل اور امریکا میں شرح اموات بہت زیادہ ہے لیکن اس کے مقابلے پاکستان میں حالت خاصی بہتر ہے لیکن پھر بھی افسوس کی بات ہے کہ اتنی اموات ہوئیں۔وزیراعظم نے کہا کہ انڈسٹری اور کنسٹرشن کھولنے کا مقصد لوگوں کو روزگار کی فراہمی تھی، اگراحساس پروگرام کے تحت پیسہ نہ پہنچاتے تو آج حالات بہت خراب ہوتے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث وہ ملک جو دوسروں کو قرضہ دیتے تھے آج وہ مقروض ہوگئے ہیں۔بہرحال پوری دنیا میں اس وقت کروناوائرس کے حوالے سے نئی حکمت عملی پر غور کیاجارہا ہے تاکہ معمولات زندگی کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ اس وباء سے بھی بچاجاسکے کیونکہ دنیا بھر کے ممالک کی معیشت بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہے اس لئے لاک ڈاؤن میں انتہائی نرمی پر سوچ بچار کیا جارہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی نسبت پاکستانی معیشت مزید لاک ڈاؤن برداشت نہیں کرسکتی۔ اب جبکہ ایک بار لاک ڈاؤن میں نرمی کردی گئی ہے دوبارہ عوام شاید اس پر سختی سے عمل نہ کریں اس لئے ضروری ہے کہ ایسی حکمت عملی اور ماڈل بنایا جائے جو لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ وباء سے بچاؤ کا سبب بن سکے۔ وزیراعظم عمران خان پہلے سے ہی سخت لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔

اور اب بھی وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اس لئے دوبارہ انہوں نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ مزید لاک ڈاؤن برداشت سے باہر ہوگا اس لئے غریب عوام کی پریشانیوں کو بڑھانے کی بجائے محدود لاک ڈاؤن کے ذریعے معمولات زندگی کو بحال کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا جائے تاکہ ملک مزید دیوالیہ کی طرف نہ جائے۔ دوسری جانب صوبائی حکومتیں بھی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مسلسل رابطوں ہیں لہٰذامشترکہ حکمت عملی اور ہم آہنگی کے ذریعے فیصلے کئے جائیں تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔چونکہ اول روز سے وفاق اور صوبائی حکومتیں لاک ڈاؤن کے فیصلوں پر الگ پیج پر دکھائی دے رہی ہیں۔

جس سے ایک اچھا تاثر عوام میں نہیں جارہا۔ دنیا کے بیشتر ممالک کروناوائرس سے متاثر ہیں مگر ملکی فیصلوں میں وہاں کوئی ابہام نہیں اس لئے وہاں پر نہ صرف کرونا وائرس پر قابو پایاجارہا ہے بلکہ معمولات زندگی سمیت معاشی سرگرمیوں کا بھی آغاز ہوچکا ہے اس لئے ہمارے ہاں بھی مشترکہ طور پر بہترین فیصلے ملک کے وسیع ترمفاد میں کئے جائیں جس سے انسانی جانوں کا زیاں بھی نہ ہو اور معیشت بھی متاثر ہونے سے بچ جائے۔